Friday, May 15, 2020

بھارت میں مسلم قیادت خوف کے سائے میں؟

بھارت میں مسلم قیادت خوف کے سائے میں؟
ڈاکٹر خان کے خلاف غداری کے مقدمہ سے مسلم رہنما خوف میں ہیں
مسلم جماعتوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ حکومت کے خلاف بیان دینا کسی مسلم رہنما کے خلاف غداری کے مقدمے کی وجہ بن جائے گا
حکومت یہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے

نئی دہلی(ساوتھ ایشین وائر )دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف حکمراں جماعت کی جارحانہ کاروائی اور حامی میڈیا کے شدید رویہ نے مسلم جماعتوں کے ذمہ داروں اور روایتی مسلم قیادت کی صفوں میں ڈر اور خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس خوف کے پھیلنے کا اعتراف خود بڑی جماعتوں کے ذمہ داروں کو ہے، جبکہ کچھ رہنماوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈر نہیں بلکہ غصہ ہے جو جمہوری انداز میں جلد پھوٹے گا۔
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جو کہ روایتی مسلم قیادت میں اہم اور با اثر شخصیت کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف غداری کے مقدمہ اور ریاست کے جارحانہ رویہ قومی مسلم قیادت میں مختلف احساسات پیدا کرنے کی وجہ بن گیا ہے، جو آج سے پہلے ان کے سامنے نہیں آئیں، جس میں خوف کے احساس کو بہت زیادہ غلبہ ہے۔ ایسا اعتراف خود مسلم جماعتوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے۔
مسلم جماعتوں نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ حکومت کے خلاف بیان دینا کسی مسلم رہنما کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونے کی وجہ بن جائے گا۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق ایک سینئر ملی رہنما نے بتایا کہ "کانگریس کے عہد میں مسلم جماعتوں کی جانب سے شدید اور جارحانہ بیانات دئے گئے، بڑی بڑی تحریکیں چلائی گئیں، جیل بھرو آندولن ہوئے، مگر کبھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ ملک سے غداری کا الزام لگادیا جائے، اس حکومت نے پوری روایتی مسلم قیادت کو خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں ڈال دیا ہے۔"
ایک بڑی جماعت کے امیر نے حال ہی میں مختلف مکاتب فکر کے رہنماوں سے رابطہ کیا اور حکومت کے جارحانہ رویہ پر کیا رد عمل ہونا چاہئے؟ پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے شناخت نمایاں نہ کرنے کی گزارش کے ساتھ القمرآن لائن کو بتایا کہ "ڈاکٹر ظفر الاسلام خان جیسی با اثر شخصیت کو پھنسانے" کے بعد کئی مسلم رہنما حکومت کے خلاف سخت بیانی سے گریز کر رہے ہیں، کیوں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ حکومت ان کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے، تاہم ساتھ ساتھ سارے رہنما ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔القمرآن لائن نے جماعت اسلامی ہند کے قومی سکریٹری محمد احمد سے پوچھا کہ کیا ڈاکٹر خان کے خلاف غداری کے مقدمہ سے مسلم رہنما خوف میں ہیں؟ جواب میں محمد احمد نے کہا کہ "خوف ہے، اور یہ طبعی ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کے سامنے جھک جائیں گے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ہماری جانب سے رد عمل ظاہر کیا جارہا ہے، جو جمہوری طریقہ ہو سکتا ہے، اس کے مطابق ہماری جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے۔"
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ "مسلم قیادت میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا ہے، کیوں کہ حکومت جس طرح سے زیادتی کر رہی ہے، اس کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ ہمارے اندر یہ احساسات پیدا ہوئے ہیں کہ ہم اگر کچھ بولیں تو ہنگامہ ہوتا ہے، حکومت چاہتی ہے کہ ہم خاموش رہیں، لیکن ایک جمہوری ملک میں ایسا نہیں ہوتا، ہم کچھ تو بولیں گے ہی۔"
جماعت اسلامی ہند کے قومی سطح کے رہنما محمد احمد نے اعتراف کیا کہ "حکومت کی کاروائی سے مسلم قیادت کے اعصاب پر اثر پڑا ہے، مگر ہم خاموش نہیں رہیں گے۔"
ساوتھ ایشین وائر کے مطابق آل انڈیا مسلم پولیٹیکل کونسل کے سربراہ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ "حال کی گرفتاریوں اور کاروائیوں سے خوف نہیں ہے، بلکہ غصہ ہے اور یہ بہت جلد باہر نکلے گا۔"
انہوں نے ساوتھ ایشین وائر سے ٹیلی فونک گفتگو میں کہا کہ " حکومت یہ پیغام دینا چاہ رہی ہے کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ کیوں کہ ایک بڑے لیڈر پر ہاتھ ڈالاگیا۔ لیکن لاک ڈاون کی وجہ سے بھی ڈر ہے، تاہم معمول کی زندگی لوٹنے پر اگر مسلم جماعتوں کی جانب سے کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "مسلم قیادت میں غصہ ہے اور غصہ بڑھ رہا ہے اور حکومت جان بوجھ کر یہ غصہ بڑھا رہی ہے، حکومت یہ چاہتی ہے کہ ہم لاک ڈاون کے درمیان ہی غصہ ظاہر کریں، جو مناسب نہیں ہوگا، اس کئے امید ہے کہ جب صورت حال معمول پر آئے گی تو ان زیادتیوں کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا جائے۔"خاص بات یہ ہے کہ جس طرح سے مسلم جماعتوں کے رہنماووں کی جانب سے رد عمل سامنے آرہے ہیں، اس سے ایک بات صاف ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف جس طرح کی کاروائی ہوئی، اس کی توقع انہیں نہیں تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مسلم جماعتوں کی جانب سے اب تک یہ اشارے نہیں دئے گئے ہیں کہ وہ حکومت کے ان اقدامات پر کس طرح کا رویہ اپنائیں گے۔ کئی دیگر رہنماووں کا کہنا ہے "لاک ڈاون اور اور ماہ رمضان گزرنے کے بعد اس مسئلہ پر تمام جماعتیں مل کر بیٹھیں گی اور حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مشترکہ جمہوری تحریک چلائی جائے گی۔"

No comments: