Tuesday, May 26, 2020

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے نلتر واقع پر سیکریٹری داخلہ کوجے آئی ٹی بنانے،ایف آئی آر درج کرنے اورانسداد دہشتگردی کی عدالت میں کیس ٹرائل کرنے کی ہدایت

گلگت (نامہ نگار خصوصی) وزیر اعلی گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری داخلہ کو نلتر واقع پر جے آئی ٹی بنانے کے احکامات دیئے ہیں دہشت گردی ایکٹ کے تحت اس واقع کاایف آئی آر کیا جائے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت
میں کیس کا ٹرائل کیا جائے،وزیر اعلی گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن  نے نلتر واقع میں دو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئیغمزدہ خاندان سے مکمل ہمدردی کا اظہار کیا ہے، وزیر اعلی گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن  نے کہا ہے کہ اس واقع کے مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا انہوں نے مزید کہا کہ عوام افواہوں پر کان نہ دھرے،حالات مکمل کنٹرول میں ہیں۔

امریکہ اور چین کے بڑھتے اختلافات اور پاکستان کی مشکلات

امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات سے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کا دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں پر بہت انحصار ہے, پاکستان ایک طرف چین کی مدد سے رابطہ سڑکوں کے نظام اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے لیے اسے امریکی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے تجارت کا معاملہ ہو، یا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں موقف کا شدید اختلاف، یا دنیا کے دوسرے خطوں میں اثر و رسوخ کی بات ہو۔ امریکہ اور چین کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے اور بعض ماہرین کا تو خیال ہے کہ ان کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل صورت حال بنتی جا رہی ہے جو تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود اپنے قیام سے ہی امریکہ کا اتحادی ہے اور چین سے بھی اس کے گہرے اقتصادی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔
پروفیسر حسن عسکری بین الاقوامی امور کے ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے جسے وہ ترک نہیں کر سکتا۔ جب کہ امریکہ اس منصوبے کی مخالفت کرتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے پاکستان کو بہت سمجھداری سے چلنا ہو گا، کیونکہ پاکستان پر چینی قرضوں یا سرمایہ کاری کے بارے میں امریکہ کے جو اعتراضات ہیں ان کے بارے میں اسے منطقی اور سائنسی جواب دینا ہو گا اور واضح کرنا ہو گا کہ چین جو کچھ دے رہا ہے، اس میں کتنا قرض ہے۔ کتنی سرمایہ کاری ہے اور کتنی رقم کس مد میں آئی ہے۔ دوسرا اسے اپنی معیشت کو درست کرنا ہو گا، جس کے اس وقت امکانات اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ کرونا نے پاکستان ہی نہیں بلکہ بڑی مضبوط معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغرب پر ہے، اس لئے اسے اپنی معیشت کی خاطر ان اداروں کو ترجیح دینی ہو گی۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چین سے اس کے تعلقات میں کوئی خرابی پیدا ہو کیونکہ چین کو بھی صورت حال کا ادراک ہے اور اگر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ ہے بھی تو یہ اس طرح کی نہیں ہو گی جیسی امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان تھی کیونکہ اب صورت حال مختلف ہے اور آج کے دور میں ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار بہت ہے۔ جیسے کہ امریکہ کی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں چین میں کام کرتی ہیں۔ دوسری جانب چین کی امریکہ میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ اس لئے یہ سرد جنگ ایک حد سے آگے نہیں جا سکے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان دونوں ملکوں سے اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے بہتر سفارت کاری کا استعمال کرنا ہو گا۔
عالمی تعلقات پر نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار پیرس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد کا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ زیادہ تجارت نہیں ہے۔ جب کہ چین کے ساتھ اس کی تجارت امریکہ کی نسبت زیادہ ہے۔ دوسرا یہ کہ جغرافیائی لحاظ سے وہ چین کے بہت قریب ہے جسے سیاسی اصطلاح میں Gravity Model کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اسے چین کے زیادہ قریب ہونا چاہئیے۔ اور یہ ہی پاکستان کے لئے بہتر آپشن ہے۔
انہوں کہا کہ اس صورت میں پاکستان پر سفارتی دباؤ تو آئے گا۔ لیکن اچھی سفارت کاری اور اپنی معیشت کے لئے مغربی اداروں پر انحصار کم کر کے اور معیشت کو بہتر بنا کر وہ اس دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی رسہ کشی کی اس صورت حال میں پاکستان کو بہتر سفارت کاری سے کام لیتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہو گی۔

بھارت میں پھنسے مزید 179 پاکستانی 27 مئی کو واہگہ کے راستے واپس پہنچیں گے

لاہور: کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارت میں پھنسے 179 پاکستانیوں 27 مئی کو واہگہ کے راستے واپس پہنچیں گے۔
کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے پاکستان اور بھارت نے مارچ کے وسط میں واہگہ اٹاری بارڈر کو مکمل طور پر بند کردیا تھا، جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں مقیم ایک دوسرے کے شہریوں کی واپسی بھی ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ بھارت میں 500 کے قریب پاکستانی شہری موجود تھے جن میں زیادہ تر 2 مرحلوں میں واپس پہنچ چکے ہیں جبکہ 179 پاکستانی شہریوں کی تیسری کھیپ 27 مئی کو واپس پہنچے گی۔ ممبئی سمیت بھارت کے مختلف شہروں سے کئی پاکستانی بذریعہ ہوائی جہاز امرتسر پہنچیں گے اور یہاں سے انہیں اٹاری بارڈر لایا جائے گا۔
ممبئی میں پھنسے ایک پاکستانی شہری نے بتایا کہ ان کا تعلق کراچی سے ہے انہیں بتایا گیا ہے کہ 27 مئی کو واہگہ بارڈر پہنچیں ، ہائی کمیشن کی طرف سے گاڑی کی تفصیلات مانگی گئی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے ہائی کمیشن سے درخواست کی ہے کہ ممبئی سے اٹاری بارڈر تک کا فاصلہ کافی زیادہ ہے، اس لئے وہ ہوائی جہازکے ذریعے امرتسرپہنچ جائیں گے اور وہاں سے پھر اٹاری بارڈر پہنچیں گے۔
دوسری طرف پاکستان میں موجود 208 بھارتی شہریوں کی بھی اسی روز واپسی کا امکان ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان میں موجود بھارتی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں اورتمام شہریوں سے واپسی سے متعلق بیان حلقی بھی لیاگیا ہے۔ ان میں مقبوضہ کشمیرسے تعلق رکھنے والی میڈیکل کی طالبات بھی شامل ہیں جن کے پاس بھارتی پاسپورٹ ہے۔
لاہورمیں مقیم ایک بھارتی سکھ خاندان کے سربراہ سردارستبیرسنگھ نے بتایا کہ وہ اپنی فیملی کے دیگر 4 افراد کے ساتھ 10 مارچ کو واہگہ بارڈرکے راستے پاکستان آئے تھے تاکہ یہاں مختلف گورودواروں کے درشن کرسکیں ، ان کے آمد کے چند روزبعد ہی کورونا وائرس کی وجہ سے واہگہ اٹاری سرحد بندکردی گئی اور وہ واپس نہیں جاسکے، انہوں نے کہا کہ وہ خود بھی دل کے مریض ہیں جبکہ ان کی بھابھی کو بھی ہارٹ پرابلم ہے ،دونوں دوائی کھاتے ہیں جو ختم ہوچکی ہے اور یہ دوائی پاکستان میں دستیاب بھی نہیں ہے۔ ان کے سفارتخانے نے ان سے رابطہ کرکے تفصیلات لی ہیں ،انہیں بتایا گیا کہ 27 مئی کو انہیں واہگہ اٹاری بارڈر کے راستے واپس بھیجا جاسکتا ہے تاہم یہ تاریخ ابھی فائنل نہیں ہے اس میں ایک دو دن کا فرق پڑسکتا ہے۔

کرونا وائرس: چین کا بھارت سے اپنے شہریوں کے انخلا کا اعلان

چین نے کرونا وائرس کے باعث بھارت میں پھنسے اپنے شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بھارت میں کرونا وائرس کیسز میں تیزی سے اضافے کے علاوہ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات پر کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق چین نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی، کولکتہ اور ممبئی سے شنگھائی، گوانگژو، جینان، ژینگژو کے لیے خصوصی پروازوں کا انتظام کیا ہے جن کا آغاز دو جون سے ہو گا۔
پیر کو بھارت میں چین کے سفارت خانے کی ویب سائٹ پر خصوصی پروازیں چلانے کا اعلان کیا گیا۔ چینی شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مذکورہ فلائٹس میں اپنی ٹکٹس بک کرا سکتے ہیں۔
بھارت کے خبر رساں ادارے ‘ٹائمز آف انڈیا’ کے مطابق بھارت کے وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ چینی شہریوں کی واپسی کے عمل میں چینی حکام سے تعاون کرے گی۔
بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے تک بھارت سے 60 ہزار کے لگ بھگ غیر ملکی شہریوں کا انخلا ہو چکا ہے۔
بھارت سے جن چینی شہریوں کا انخلا کیا جا رہا ہے ان میں تاجر، طلبہ اور سیاح شامل ہیں جو فلائٹ آپریشن بند ہونے سے بھارت میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
چینی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وطن واپس آنے کے خواہش مند افراد کو سفری اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے جب کہ کرونا کی علامات رکھنے والوں کو سفر کی اجازت نہیں ہو گی۔

وائرس کے پھیلاؤ پر بھارت نے بھی فروری میں چین کے شہر ووہان سے 700 شہریوں کا انخلا کیا تھا۔
کرونا کیسز میں مسلسل اضافے کے بعد بھارت وائرس سے متاثرہ 10 بڑے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
اس دوران بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ دنوں سرحدی حد بندی کے دیرینہ تنازع نے پھر سر اُٹھا لیا تھا۔
بھارت کی مشرقی ریاست سکم اور لداخ میں چین اور بھارت کی مشترکہ سرحد پر دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کئی جوان زخمی ہو گئے تھے۔
بھارت اور چین کے درمیان 1962 میں سرحدی تنازع پر جنگ بھی ہو چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد 3500 کلو میٹر طویل ہے۔ لیکن بہت سے علاقوں کی سرحدی حد بندی کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔
بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج موکنڈ نراوانے نے بھی جمعے کو چین سے ملحقہ سرحدی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ بھارت کا یہ الزام ہے کہ چینی فوج نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے لداخ میں سرحدی خلاف ورزی کی۔ البتہ چین نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

کرونا وائرس اور سائبر حملے ساتھ ساتھ جاری

کرونا وائرس کی عالم گیر وبا کے باوجود سائیبر حملوں کے خطرات پوری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ بہت سے ممالک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سائیبر جنگ میں ملوث ہیں۔ ہر ملک یہی شکایت کرتا ہے کہ اس کے سائیبر حقوق پر ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کرونا وائرس سے لڑنے سے متعلق مختلف ملکوں کی تحقیقات بھی چوری ہو رہی ہیں۔
تل ابیب سے وائس آف امریکہ کی نامہ نگار لنڈا گریڈ سٹائین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیل کے قومی ڈائریکٹریٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سینکڑوں ویب سائٹس ہیک کر لی گئی ہیں۔
اسرائیل کو شک ہے کہ ممکنہ طور پر یہ کارروائی ایران کی ہو سکتی ہے۔ بسا اوقات اسرائیل کی ویب سائٹس کے مواد کو بھی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے جوابی کارروائی کے طور پر ایسے اقدام کیے۔
اسرائیل ایک عرصے سے سائیبر سیکیورٹی کے سلسلے میں سرگرم ہے۔ اس کی فوج میں سینکڑوں سائیبر ماہرین کام کرتے ہیں اور فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد نجی کمپنیوں میں بھی یہی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی کے سائیبر ریسرچ سینٹر کے محقق جل بارام بتاتے ہیں کہ اسرائیل اپنے منفرد انداز سے اس مسئلے سے نمٹ رہا ہے۔ یہ تعلیمی، سرکاری اور نجی اداروں کے اشتراک سے درپیش عالمی خطروں کا مقابلہ کر رہا ہے۔ کیوں کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ نہ صرف اس سے فوج کو خطرہ ہے بلکہ ملک کی سلامتی بھی خطرے میں ہے۔
اسرائیل کی کمپنی چیک پوائنٹ کا شمار دنیا کی بہترین سائیبر سیکیورٹی فرموں میں ہوتا ہے۔ اسے جن تین افراد نے قائم کیا ہے, وہ اکٹھے فوج میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
اس کمپنی نے حال ہی میں چین کی جانب سے سائیبر چوری کی کارروائی کو طشت از بام کیا ہے۔ چین کی نائی کان نامی اس کارروائی میں جنوب مشرقی ایشیا کے سرکاری اداروں کے کمپیوٹر ڈیٹا کو چوری کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
چیک پوائنٹ کے ایک اعلیٰ عہدے دار لوٹیم فنکل سٹائین کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی سال پہلے اس حملے کا سراغ لگا لیا تھا۔ پوری تصویر واضح ہونے میں کچھ وقت لگا۔ مختلف انداز کے حملے جدا جدا ہوتے تھے۔ پھر ہم نے پتہ چلا لیا کہ ان سب کے سرے ایک بڑی مہم سے جا ملتے ہیں جو کئی برسوں سے جاری ہے۔
چین کی سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ان اداروں کی امریکہ تک رسائی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ویکسین سے متعلق امریکہ میں ہونے والی ریسرچ کو ہیک کرنے کی کوشش کی۔ چین کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
جل بارام کا خیال ہے کہ چین ان ملکوں میں سے ایک ہے جو سائیبر حملوں کے ذریعے دوسرے ملکوں کے راز چراتے ہیں۔ چین نے خاص طور سے وہ صنعتی راز حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جن کے حقوق اس کے پاس نہیں تھے۔
عالمی ادارہ صحت نے بھی کہا ہے کہ متعدد بار اس کے کمپیوٹر کے ڈیٹا کو چرانے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
ادارے نے انتباہ کیا ہے کہ مختلف ممالک الگ الگ کرونا وائرس کے انسداد کے لیے ویکسین پر تحقیق کر رہے ہیں اور اس لیے اس بات کا امکان بڑھ گیا کہ سائیبر حملوں میں اضافہ ہو گا اور یہ کوشش کی جائے گی کہ ایک دوسرے کی تحقیقاتی کوششوں سے متعلق مواد حاصل کر لیا جائے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا اسلامی ممالک کی تنظیم کے اقوام متحدہ میں رکن ممالک کے ورچوئل اجلاس سے خطاب

اسلام آباد  (اے پی پی) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اسلامو فوبیا کا خاتمہ اقوام متحدہ کی پہلی ترجیح ہے، وہ اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ اس کا مکمل جائزہ لیا جانا چاہئے کیونکہ یہ عالمی امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ وہ اسلامی ممالک کی تنظیم کے اقوام متحدہ میں رکن ممالک کے ورچوئل
اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اپنے خطاب میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور اسلامو فوبیا کا معاملہ اٹھایا تھا جس پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے جواب دیتے ہوئے اس عفریت کے خاتمہ کیلئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ منیر اکرم نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کا ذمہ دار قرار دیئے جانے پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گذشتہ سال 5 اگست کے نئی دہلی کے اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہیں۔ انہوں نے ان اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ریاستی سرپرستی میں اسلامو فوبیا کے نام پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ اقدامات انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی اور خطہ کے امن و سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں اسلامی ممالک کی تنظیم کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انڈیا پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف اس امتیاز کا خاتمہ کرے۔


تارکین وطن کارکنوں کی ترسیلات زر میں کمی کا خدشہ ہے، عالمی بینک

واشنگٹن(اے پی پی) عالمی بینک کا تخمینہ ہے کہ اس سال تارکین وطن کارکنوں کی جانب سے اپنے آبائی ممالک میں بھیجی جانے والی ترسیلات زر کا مجموعی حجم کم رہے گا۔ عالمی بینک نے اس کی جزوی وجہ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے پیش نظر ملازمتوں کا خاتمہ بتایا ہے، بینک نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو موصول ہونے والی ترسیلات زر گزشتہ سال کی سطح سے 109 ارب ڈالر یعنی 19.7
فیصد کم ہوجائیں گی۔بینک کا کہنا ہے کہ یہ”حالیہ تاریخ کی سب سے بڑی کمی“ ہوگی اور سال 2009 میں ریکارڈ کی گئی شرح سے کہیں زیادہ بڑی ہوگی جب دنیا عالمی مالیاتی بحران سے دوچار تھی۔ بینک نے عالمگیر وبا اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح کے معاشی بحران کے سبب اجرتوں میں کمی اور مہاجر کارکنوں کی ملازمت کے مواقع میں زوال کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا ہے۔گذشتہ ایک عشرے کے دوران جب دنیا بھر میں تارکین وطن کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا، کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ترسیلات زر میں 1.5 گنا سے زیادہ کا اضافہ ہوا جو گذشتہ سال 554.2 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔یہ ترسیلات زر آبائی ممالک میں موجود خاندانوں کے اخراجات اور ان ممالک کے لیے غیر ملکی کرنسی کے حصول کا ذریعہ رہی ہیں۔نقل مکانی اور ترسیلات زر کے بارے میں عالمی بینک کے اعلیٰ ماہر معاشیات، دلیپ رتھا نے متنبہ کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں بہت سے خاندان غربت کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے لئے خوراک، ادویات یا اسکول کی تعلیم کے حصول سے محروم ہوسکتے ہیں

بھارت ہمارے تحمل کوکمزوری نہ سمجھے، کسی بھی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیں گے، شاہ محمودقریشی

ملتان (اے پی پی)وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کے تحمل اور امن کی خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے اور بھارت کو یہ واضح طورپر جان لینا چاہیے کہ اس کی جانب سے کسی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا، ان خیالات کااظہار انہوں نے ملتان میں نماز عید کے بعد میڈیا کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا۔ وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہاکہ کوروناوائرس کے مقابلے کے لیے علاقائی تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے اس عالمی وباءکے مقابلے کےلئے وزرائے صحت کی کانفرنس کا اہتمام کیا۔انہوں نے کہاکہ میں بھارتی حکومت کو واضح پیغام
دینا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے تحمل کو ہماری کمزوری ہرگز نہ سمجھے۔ پاکستان کسی بھی جارحیت کی صورت میں منہ توڑ جواب دے گا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے فون پر بات کی ہے اور انہیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا ہے، میں نے اقوام متحدہ کے سربراہ کو بتایا ہے کہ بھارت دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے وا لے مظالم سے ہٹانا چاہتا ہے، انہیں بھارت کے فالس فلیگ آپریشن سے بھی آگاہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ میں نے اسلامی کانفرنس تنظیم کے سیکرٹری جنرل سے بھی بات کی ہے اورانہیں بھارت کے اسلاموفوبیا سے آگاہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ بھارت میں کوروناوائرس کے دوران بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایاجارہاہے،اسلامی کانفرنس تنظیم کو اس سلسلے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے ۔وزیرخارجہ نے کہاکہ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کوبھی ایک خط لکھا ہے اور انہیں بھارتی عزائم کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔انہوں نے میرے جذبات سے عالمی برادری کوبھی آگاہ کردیاہے۔وزیرخارجہ نے مزید کہاکہ وزارت خارجہ میںعید کے بعدایک اعلی سطح کا اجلاس بلایا جائے گا تاکہ پاکستان کے خلاف بھارت کے مذموم عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے لائحہ عمل مرتب کیا جاسکے۔انہوں نے کہاکہ کشمیر کمیٹی، متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے عہدیدار اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے بارے میں سوال کے جواب میںوزیرخارجہ نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت بلوچستان میں بدامنی پیدا کرناچاہ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بھارتی جاسوس کلبھوش یادیو کوبھی بلوچستان سے ہی حراست میں لیاگیاتھا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پاس خفیہ معلومات ہیں کہ بھارت بلوچستان میں مختلف قوتوں کی پشت پناہی کررہاہے اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے لیے انہیں استعمال کررہاہے۔انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے اورافغانستان سے منسلک بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں بھارت کی سرگرمیوں سے پاکستان بے خبر نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ عالمی برادری کو اس صورتحال سے آگاہ کیاجاچکا ہے۔افغانستان کی صورتحال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہاکہ طالبان کی جانب سے عیدالفطر پر جنگ بندی کا اعلان افغانستان میں قیام امن کاسنہری موقع ہے۔میری دعا ہے کہ افغان عوام امن سے رہیں اور دوحا میں شروع ہونے والا امن معاہدہ آگے بڑھے۔کراچی طیارہ حادثے کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اس حادثے کی شفاف تحقیقات ہوںگی اور غفلت کے ذمہ دار افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ بلیک باکس اور پائلٹ کی گفتگو کی ریکارڈنگ تحقیقات میں معاون ثابت ہوںگی۔وزیرخارجہ نے مزید کہاکہ کورونا وائرس کے باعث اس مرتبہ عیدالفطر ماضی سے یکسر مختلف ہے۔


گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 1356نئے کیسز رپورٹ ہوئے ، 30مزید اموات کے ساتھ مجموعی اموات 1197 رپورٹ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر

اسلام آباد ۔ (اے پی پی) ملک میں کورونا وائرس کے ایکٹوکیسز کی تعداد 38 ہزار194، تصدیق شدہ کیسز کی تعداد بھی57 ہزار 705تک پہنچ گئی، گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 1356نئے کیسز رپورٹ ہوئے ، 30مزید اموات کے ساتھ مجموعی اموات 1197ہوگئیں ہیں۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹرکی طرف سے کورونا وائرس سے متعلق تازہ ترین اپ ڈیٹس کے مطابق پنجاب میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد 20ہزار 654تک پہنچ گئی ہے۔ سندھ میں 22 ہزار 934کورونا کیسز رپورٹ ہوئے، خیبر پختونخوا میں کیسز کی تعداد 8 ہزار80 اور اسلام آباد میں 1728ہوگئی، بلوچستان میں 3468,
گلگت بلتستان میں630کیسز رپورٹ ہوئے، آزاد کشمیر میں کورونا وائرس کیسز کی تعداد 211 ہوگئی۔ م±لک بھر میں اب تک 18ہزار 334مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے۔ این سی او سی مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 30 اموات ہوئیں ہیں جس سےکورونا وائرس سے سے موت کے منہ میں جانے والے افراد کی تعداد 1197تک پہنچ گئی۔ جن میں سندھ میں 379، پنجاب میں 352، کے پی کے میں 408، گلگت بلتستان 8 ،آزاد جموں کشمیر میں 2،اسلام آباد میں 17اور بلوچستان میں 41شامل ہیں۔ اب تک 4 لاکھ 90ہزار 408افراد کے کورونا وائرس کے لیے ٹیسٹ کئے گئے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں7ہزار 252افراد کے ٹیسٹ کیے گئے۔ملک کے 726ہسپتالوں میں4429 مریض زیر علاج ہیں۔ 407کرونا متاثرین کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے