Sunday, June 7, 2020

پاکستان میں تحقیق کے نئے دریچے۔ویب آف سائنس کی رپورٹ

دنیا میں تحقیق کی اشاعت کے حوالے سے ویب آف سائنس کی ایک انتہائی مستند اور قابل قدر حیثیت ہے۔ڈاکٹر ایگن گار فیلڈ نے دنیا میں پہلی دفعہ تحقیق کے لئے حوالہ دینے یعنی citation indexکی بنیاد پر ایک قابل اعتماد اور مستند ریسرچ انجن "ویب آف سائنس''کا آغاز کیا۔اس وقت اس پلیٹ فارم پر تقریبا 107کھرب تحقیقی حوالے اور 16کروڈ کے قریب ریکارڈ موجود ہیں۔آج 9000سے زیادہ سرکاری و نجی اور حکومتی تحقیقی ادارے اس پلیٹ فارم کی افا دیت سے استفادہ کرتے ہوئے،ہزاروں محقّین کو ویب آف سائنس پر موجود ذرائیے اور مواد سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تیارکر رہے ہیں۔حال ہی میں اس موئثر ادارے نے پاکستان میں تحقیق کی اشاعت اور اس کے معیار کے حوالے سے رپورٹ طبع کی ہے جس کے اہم نکات قارئین کی پیش نظر ہیں۔
۱۔پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کیلئے موافق میدان پیدا کرنے میں اہم پیش رفت ہو رہی ہے۔اس ضمن میں تحقیقی پیداواریت کے حوالے سے تین اہم اعشائے کافی حوصلہ افزا ء ہیں۔2019کے دوران پاکستان کے سائنسدانوں کی طرف سے ویب آف سائنس  میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔پچھلے دس برسوں میں ان تحقیقی مقالوں میں آرہے سے زیادہ مقالات ایسے مجلوں میں شاع ہو رہی ہیں۔جن کی باقائدہ ایمپکٹ فکٹر ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی محققین کی طرف سے شائع ہونے والے زیادہ تحقیقی مقالات دنیا کی بہترین مجلوں میں ہو رہی ہے۔اس ضمن میں پاکستانی سائنسدانوں کی مطبوعہ تحقیق سے دنیا کے سائنسدان استفادہ کرتے ہوئے ان کے تحقیق کے حوالے بھی دے رہے ہیں۔اور ان حوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ان اعشاریوں کی بنیاد پر پاکستان دنیا میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت کی بنیاد پر 44ویں نمبر پر آتا ہے۔اور ان مقا لوں کی سب سے زیادہ حوالہ دینے کی ضمن میں 43ویں نمبر پر آتا ہے جو کہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
۲۔ بین الاقوامی تحقیق اور ان کی بنیاد پر طبع ہونے والی مقالات کی عصری تقاضوں اور مسائل سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے کسی بھی اچھی طبع شدہ تحقیقی مقالے کی معیاریت اور مناسبت کا ایک اعشاریہ و اس مقالے کی دنیا کی چوٹی کے مقالوں میں حوالہ بھی ہے یعنی ان مقالوں کا دنیا 1فیصد کے چوٹی کے تحقیقی مقالوں میں ذکر ایک اہم جزوہے۔
تحقیقی اشاعت کا ایک دوسرا اہم عنصر مقالات کا اپنی تحقیقی میدان کے 10فیصد چوٹی کے مقالات میں شمولیت ہے۔یقینا ان کا تعلق ایک دفعہ پھر متعلقہ میدان میں تحقیق کے حوا لات سے ہے۔اس ضمن میں پاکستان کا نمبر ملائیشاء سے قدرے ذیا دہ ہے جو تقریبا 60مقا لات ہیں۔جبکہ سینگاپور اور سعودی عرب کے اوسطا 70مقالات دنیا کے دس فیصد ٹاپ تحقیقی مقالات میں شامل ہیں۔
۳۔تحقیق اور اس کی بین الاقوامی معیاری مجلوں میں طباعت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے تحقیقی بین الاقوامی معیار ی تحقیقی اداروں سے اشراک کریں۔اس ضمن میں پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں نے سب سے ذیادہ اشتراک چین کے تحقیقی اداروں سے کی ہے اور سب سے ذیادہ یعنی 14356تحقیقی مقالے چین کے محققین کے ساتھ طبع کرائے ہیں۔ دوسرے نمبر پر امریکہ 11333،تیسرے نمبر پر سعودی عرب 10441اور چوتھے نمبر پر برطانیہ 8255مقالات طبع کرانے پر آتا ہے۔
۴۔پاکستانی محققین اپنی تحقیقی مقالات کو دنیا کی بہترین آئی ایف مجلوں میں طبع کرانے میں مسلسل کوشاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 66فیصد سائنسی مقالات ان ایمپکٹ فیکٹر مجلوں پر طبع ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے پاکستانی تحقیق دنیا کی تحقیق پر نمایا ں طور پر بڑھ رہی ہے۔پچھلے سال 89ہزار کے قریب تحقیقی مقالے دنیا کی بہترین تحقیقی مجلوں میں شائع ہوئی ہیں۔ان میں تقریبا 31فیصد مقالے متعلقہ تحقیقی میدان کے ٹاپ بہترین 25فیصد مجلوں میں شائع ہورہی ہیں۔جو پاکستانی تحقیقی مقالات کی معیار میں بہتری کی غمازی کرتا ہے۔
۵۔تحقیق کے وہ میدان جن میں پاکستانی اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں نے نمایاں طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے میں زراعت،علوم حیوانات و نباتات، علوم ادویات سازی، کمپیوٹر سائنس، فزکس اور ریاضی شامل ہیں۔ جو پاکستان میں جدید تحقیق کی سمت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم علوم نفسیات اور نیورالوجی میں پاکستان کا حصہ انتہائی کم ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تحقیقی ادارے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے ان میدانوں میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کریں۔ پاکستان نے 19فیصد تحقیق مقالات میڈیسن (طب) اور کیمسٹری (کیمیاء) کے میدان میں طبع کئے۔ جو بالترتیب 14752اور 10660ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ پاکستانی محققین نے علوم حیوانات و نباتات، انجینئرنگ اور فزکس کے میدانوں میں بھی خاطر خواہ تحقیقی مقالے طبع کئے ہیں۔ تاہم معاشیات، نیورالو جی، نفسیات اور خلائی تحقیق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان میدانوں میں بہت کم تعداد میں تحقیق مقالات طبع ہوئے ہیں۔ 
۶۔ کیمسٹری (کیمیاء) کے میدان میں پاکستان میں سب سے زیادہ تحقیق اور ان کی اشاعت کرنے والے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں قائد اعظم یونیورسٹی سر فہرست ہے۔ اس کے بعد کامسیٹ کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی آتی ہیں۔ 
اسی طرح علوم نباتات و حیوانات میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سرفہرست ہے جبکہ ان کے بعد لمز،لاہور، پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور بارانی یونیورسٹی آتی ہیں۔ پاکستان کے 20چوٹی کے تحقیقی اداروں میں کامسیٹ انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، قائداعظم یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، پنجاب یونیورسٹی، NUST، آغاخان یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں میں کامسیٹ نے 12000اور قائد اعظم یونیورسٹی نے 11500 تحقیقی مقالوں کی طباعت کیں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے چھ ادارے جن کی تحقیقی مقالوں کا اوسط فیکٹر دنیا کے اوسط فیکٹر سے زیادہ ہے۔ میں نیشنل سینٹر فار فزکس (قومی مرکز برائے طبیعات)، آغا خان یونیورسٹی، کامسیٹ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پشاور اور LUMSشامل ہیں۔ جہاں تحقیقی اداروں میں تجربہ کار محققین کی ایک کثیر تعداد کی وجہ سے بھی ہے۔ 
درج بالا حقائق کا تنقیدی جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں پاکستانی تحقیق کے معیار اور ان کی دنیا کے بہترین تحقیقی مقالوں میں اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے جو یقینا ایک حوصلہ افزا امر ہے۔ تاہم اس تحقیق کو معاشرے کے مسائل کو حل کرانے اور اس ضمن میں دیر پا اورکم قیمت اشیاء اور خدامت فراہم کرانے کیلئے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جدید میدانوں بشمول نفسیات، علوم عمرانیات، نیورولوجی، خلائی تحقیق وغیرہ میں مزید معیاری تحقیق کی ضرورت ہے۔ قراقرم یونیورسٹی میں گریجویٹ سکول کے قیام کا ایک بنیادی مقصد گلگت  بلتستان میں تحقیق کی بنیاد پر یہاں کے مسائل کیلئے ایک دیرپا اور کم قیمت حل تلاش کرنا بھی ہے۔ اس وقت گریجویٹ سکول میں 11ایم ایس اور 3پی ایچ ڈی پروگرامز شروع کیئے گئے ہیں۔ جن میں اس وقت کم و بیش 500طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم و تحقیق میں مصروف ہیں اس ضمن میں سیشن 2019بہار میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات نے زیادہ تر درکار کورس وقت ختم کر لیا ہے اور پچھلے مہینے میں آن لائن ورکشاپ کے ذریعے تقریباً 60ایم ایس اور تین پی ایچ ڈی طلبا نے اپنی تحقیقی ڈھانچہ (سائینوپسز) پیش کئے۔ اس ورکشاپ کی تفصیل اگلی قسطوں میں پیش کی جائے گی۔ اس تحقیق کا زیادہ توجہ گلگت   بلتستان کے مسائل اور چیلنجز ہیں۔ جن میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلی، گلیشیرز اور منجمد پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات، قدرتی آفا ت، خوراک کی کمی، زراعت اور زمین کے مسائل،کرونا وائرس سے پھوٹنے والی بیماریاں COVID-19کے تدارک کیلئے درکار حکمت عملی، ادویاتی نباتات، پانی کے مسائل، تعلیمی معیار اور اساتذہ کی استعداد کار بڑھانا، جذباتی ذہانت اور ان کے معاشرے پر اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ اس ضمن میں محققین کی نگرانی کرنے والے اساتذہ کرام کو تاکید کی ہے کہ ان طلبہ سے معیاری تحقیق کے اصولوں پر کام کراتے ہوئے ان کو بین الاقوامی مجلوں میں اپنی تحقیقی مقالات کو طبع کرانے کو ممکن بنائے تاکہ معاشرے کے مسائل کو حل کرانے اور پاکستان میں تحقیق کے معیار کو بڑھانے میں قراقرم یونیورسٹی ایک بھر پور کردار ادا کر سکے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو تمام زمینی اور آسمانی آفات سے حفظ وآمان میں رکھیں اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم علم وتحقیق کے ذریعے معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔ آمین ثمہ آمین۔

ہنزہ کیمپس میں اہداف کے مطابق تعلیمی اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری ہیں،ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ

ہنزہ(پ ر)قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ شاہ نے تعلیمی اور ترقیاتی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے ہنزہ کیمپس کا دورہ کیا۔ اس دورے میں وائس چانسلر کے ہمراہ پی ڈی ورکس انجینئرشبیر حسین بھی موجود تھے۔ ہنزہ کیمپس پہنچنے پر ڈائریکٹر ہنزہ کیمپس ڈاکٹر رحمت کریم نے وائس چانسلر کو کیمپس میں جاری تعلیمی اور ترقیاتی سرگرمیوں کے حوالے سے بریفنگ دی اور بتایا کہ کیمپس میں جاری آن لائن کلاسیں اچھے انداز میں جاری ہیں اور تقریبا ً 60-70فیصد طلبابلینڈڈ لرننگ کی کلاسوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ باقی طلباء کو دور دراز سہولتی مراکز کے
ذریعے تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔پبلک ریلیشنز آفس کے مطابق بعدازاں وائس چانسلر نے کیمپس میں زیر تعمیر اسٹاف کے لیے دفاتر، کیفے ٹیریا اور کلاس رومز کے تعمیراتی سائٹس کا دورہ کیا۔وائس چانسلر نے کہاکہ کے آئی یو ہنزہ کیمپس سر فہرست نو قائم کردہ سب کیمپس میں سے ایک ہے جہاں اہداف کے مطابق تعلیمی اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے سال طلباء کے داخلہ 1000 سے تجاوز کرے گا۔ واضح رہے کہ قراقرم یونیورسٹی ہنزہ کیمپس کا آغاز 2017 میں کیا گیا تھا جہاں سیاحت اور مہمان نوازی، بزنس مینجمنٹ، لائف سائنسز اور ریاضی کے شعبوں میں لگ بھگ 450 طلباء اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کیمپس کے سیاحت کے پروگرام نے جی بی کے مختلف حصوں سے آنے والی اچھی تعداد میں طلباء کو راغب کیا ہے۔ گذشتہ سال ایکو ٹورزم، ہاسپٹیلٹی اور کوہ پیمائی سے متعلق پہلی بین الاقوامی کانفرنس بھی منعقد کیاگیاتھا جس میں صدر پاکستان وچانسلر قراقرم یونیورسٹی نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کیا تھے۔دورے میں وائس چانسلر نے مہمان نوازی اور سیاحت میں یونیورسٹی آف سائنس ملائیشیا سے پی ایچ ڈی کے کامیاب دفاع پرہنزہ کیمپس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحمت کریم کو مبارکباد بھی پیش کی اور ان کی ڈاکٹریٹ کو ہنزہ کیمپس میں جاری مہمان نوازی و سیاحت کے شعبہ کو مزید تقویت ملنے کے لیے پیش خیمہ قرار دیا۔

کووِڈ 19 سے مرنے والے 74 فیصد افراد پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے، ڈاکٹر ظفر مرزا

 اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی اموات میں ایسے 74 فیصد تعداد ان مریضوں کی تھی جو پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا تھے۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی نے کہا کہ پاکستان میں عام پائی جانے والی بڑی بیماریوں میں زیادہ احتیاط کی جائے۔انہوں نے کہاکہ ملک میں کووِڈ 19 کے باعث جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں 74
فیصد مریض وہ تھے جنہیں ذیابیطس، بلڈ پریشر یا دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے، اور ایک سے زائد بیماریوں میں مبتلا ہونے کی صورت میں وائرس سے ہلاکت کا امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اگر ماسک لگانے کے علاوہ معمر افراد اور بیماروں کی حفاظت کے حوالے سے زیادہ احتیاطی رویہ اپنایا جائے تو خاصی بچت ہوسکتی ہے۔پریس کانفرنس میں انہوں نے کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے روزانہ کی تعداد پر کیے جانے والے ٹیسٹ کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 30 ہزار ٹیسٹ روزانہ کے ہدف سے ہم دور ہیں لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہم نے 23 ہزار 100 ٹیسٹ انجام دیے جن میں سے 4 ہزار 960 مثبت آئے۔ظفر مرزا نے کہا کہ اگر ٹیسٹس کی تعداد اور اس کے نتیجے میں مصدقہ کیسز کی شرح دیکھی جائے تو یہ 21.4 فیصد بنتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں اب تک مجموعی طور پر 6 لاکھ 83 ہزار 608 ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور اب تک متاثرہ مریضوں میں سے 34 فیصد افراد صحتیاب ہو کر اپنی زندگیوں کے معمول کی جانب لوٹ چکے ہیں۔معاون خصوصی نے بتایا کہ اس وقت ملک کے ہسپتالوں میں 5 ہزار سے زائد مریض زیر علاج ہیں اور ان میں سے 262 کی حالت تشویشناک ہے اور وینٹیلیٹرز پر ہیں۔ظفر مرزا نے کہاکہ ملک میں کووِڈ 19 کے لیے مختص کردہ وینٹیلیٹرز میں سے 75 فیصد اب بھی خالی ہیں اس کے باوجود یہ سننے کو اتا ہے کہ بڑے شہروں کے ہسپتالوں پر دباؤ ہے۔اس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک خصوصی ایپلکیشن کل متعارف کروائی جس کا استعمال کرتے ہوئے 6 مریضوں کو متبادل ہسپتال بھجوایا گیا۔معاون خصوصی نے کہا کہ پچھلے 24 گھنٹوں میں 67 اموات کے ساتھ مجموعی تعداد 2 ہزار 2 تک پہنچ گئی ہے اور روزانہ اموات کی شرح 75 سے 76 فیصد ہے۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرایا کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسکس کا استعمال نہایت موثر ہے اس کا استعمال ضرور کریں۔

مزید 34افراد جاں بحق،ملک میں کورونا سے ہلاکتیں 2000 اور مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ گئی

 اسلام آباد (این این آئی)ملک میں کورونا سے مزید 34 افراد انتقال کرگئے جس کے بعد اموات کی مجموعی تعداد 2032 ہوگئی جبکہ نئے کیسز سامنے آنے کے بعد مریضوں کی تعداد 101173 تک پہنچ گئی،33465 مریض صحتیاب ہوگئے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے مطابق اتوار کو ملک بھر سے کورونا کے مزید 2946 کیسز اور 34 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں جن میں سندھ میں 16 ہلاکتیں اور 1744 کیسز، خیبرپختونخوا میں 14 ہلاکتیں اور 486 کیسز جب کہ اسلام آباد سے 656 کیسز اور 4 ہلاکتیں سامنے آئیں،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے 30، 30 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔وفاقی دارالحکومت سے کورونا وائرس کے مزید 656 کیسز اور 4 ہلاکتیں سامنے آئیں جس کی تصدیق سرکاری پورٹل پر کی گئی ہے۔پورٹل
کے مطابق اسلام آباد میں کیسز کی مجموعی تعداد 4979 جب کہ 49 افراد انتقال بھی کر چکے ہیں،اسلام آباد میں اب تک کورونا وائرس سے 629 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں،آزاد کشمیر میں کورونا کے مزید 30 کیسز کی تصدیق سرکاری پورٹل پر کی گئی ہے۔پورٹل کے مطابق علاقے میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 361 ہوگئی ہے، علاقے میں اب تک وائرس سے 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔سرکاری پورٹل کے مطابق آزاد کشمیر میں کورونا سے اب تک 182 افراد صحت یاب ہوچکے ہیں۔گلگت بلتستان سے بھی کورونا کے 30 نئے کیسز سامنے آئے جس کی تصدیق سرکاری پورٹل پر کی گئی ہے۔حکومتی اعدادو شمار کے مطابق علاقے میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 927 ہو گئی ہے جب کہ 13 افراد اب تک انتقال کر چکے ہیں، 541 افراد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔پنجاب میں کورونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 37090 اور ہلاکتیں 683 ہیں، صوبے میں اب تک کورونا سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد 8109 ہے۔اتوار کو سندھ میں کورونا سے مزید 16 افراد جاں بحق ہوگئے جس کے بعد صوبے میں ہلاکتوں کی تعداد 650 ہوگئی۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 1744 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد متاثرہ مریضوں کی تعداد 38108 تک جا پہنچی ہیانھوں نے بتایا کہ صوبے میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 18 ہزار 776 ہو گئی ہے۔

وزیر اعظم نے چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کو سزا کی منظوری دیدی۔۔۔عمران خان نے فیصلہ کیا تھاان لوگوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے عوام اور ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہے، وزیر اطلاعات

 اسلام آباد(این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کیخلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کردی ہے جبکہ وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ عمران خان ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگانے والوں کے احتساب کیلئے اقتدار میں آئے ہیں،وزیر اعظم چینی سکینڈل معاملہ پر بہت سنجیدہ تھے،کئی لوگوں کا خیال تھا معاملہ رفع دفع ہو جائیگا،ہمارا احتساب اور اس ملک کو آگے لے جانے کا عزم اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ اتوار کو وزیر اطلاعات شبلی فراز نے معاون خصوص برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں بھی یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو ہم تمام ان لوگوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے اس ملک کے عوام کو، اس ملک کے اداروں کو اور اس ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب چینی کا بحران آیا تو وزیر اعظم عمران خان نے فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا، روایت تو ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فوراً انکوائری کمیشن بن جاتا ہے لیکن اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا اور وقت کے ساتھ لوگ اسے بھول جاتے ہیں،وزیر اعظم اس بارے میں بہت سنجیدہ تھے لہٰذا انہوں اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی پبلک کیا، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جائیگا، اس کے بعد فورنزک آڈٹ ہوا اور اس پر بھی لوگوں کے شکوک تھے کہ بات شاید اس سے آگے نہیں بڑھے گی کیونکہ شوگر کے شعبے میں بڑے بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ناصرف مقررہ وقت پر فارنزک آڈٹ ہوا بلکہ اس کی تفصیلات بھی عوام کو بتائی گئیں۔شبلی فراز نے کہا کہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ یہیں رفع دفع ہو جائے گا لیکن ہمارا احتساب اور اس ملک کو آگے لے جانے کا عزم اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔اس موقع پر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ رپورٹ گزشتہ پانچ سال کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ شوگر کی صنعت میں اہم کھلاڑی اور افراد بے ضابطگی سے مافیا کے
انداز میں کام کرتے ہیں اور سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہے۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ شوگر انڈسٹری کے لوگ من چاہی زیادتیاں کر رہے تھے، یہ مافیا کی طرح کام کر رہے تھے اور اس میں موجود تمام ہی اہم اور بڑے افراد کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہورہے تھے اور اس کا نتیجہ غریب عوام کی جیب سے پیسہ نکالنا تھا چاہے وہ قیمت بڑھا کر ہو، ٹیکس چوری سے ہو یا سبسڈی لے کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دور میں جب چینی کی قیمتیں بڑھیں تو انہوں نے پاکستانی عوام سے وعدہ کیا کہ میں اس معاملے کی تحقیق کراؤں گا، اس معاملے کو منظر عام پر بھی لاؤں گا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ وزیر اعظم صاحب کا فیصلہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، وہ مالی طور پر یا باقی کسی طریقے سے کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، اسے جواب دہی کرنی پڑے، یہی پاکستان تحریک انصاف کا منشور ہے اور یہی وہ مینڈیٹ ہے جو پاکستان کے عوام نے انہیں دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کمیشن اور وفاقی کابینہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنی سفارشات میں نے وزیر اعظم کو جمع کرائی جس پر آج سینئر قیادت کے ساتھ بنی گالا میں تفصیلی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو عمل کیا جائے گا اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں پہلا حصہ پینل ایکشن ہے یعنی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور کسی بھی پینل ایکشن کی ضمن میں آتے ہیں جس میں سزا کے ساتھ ساتھ وصولی کا عمل بھی شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسرے حصے کے تحت انضباطی فریم ورک میں جو تبدیلیاں شامل ہیں جس میں انڈسٹری اور کمیشن کی رپورٹ کو یکجا کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تیسرا اور سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ شوگر کی قیمتوں کو لے کر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ قیمتیں اس معیار پر واپس آ جائیں جو چینی کی پیداواری قیمت ہے، پہلی مرتبہ کمیشن نے چینی کی قیمت معلوم کی ہے کیونکہ اس سے پہلے شوگر مل ایسوسی ایشن والے ہی بتاتے تھے کہ چینی کتنے میں بتاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان سفارشات کو لے کر میں گیا تھا جنہیں وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے۔

جہانگیرترین اور خسرو بختیار عمران خان کیخلاف جال تیار کررہے ہیں‘عظمیٰ بخاری

لاہور(این این آئی)مسلم لیگ(ن)پنجاب کی ترجمان عظمی بخاری نے انکشاف کیا ہے کہ جہانگیرترین اور خسرو بختیار عمران خان کیخلاف جال تیار کررہے ہیں،تحریک انصاف کا شیرازہ چند ماہ میں بکھرنے والا ہے،چینی سکینڈل منظر عام پر آنے بعد حکومتی لوگوں کی بڑی تعداد را ہ فرار تلاش کررہی ہے،شیخ رشید کے ٹارزن کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بزدار صاحب تعلیم کے بجٹ پر 11ارب کا کٹ لگاکر کونسی ترجیحات کو فوکس کرنا ہے؟،آپ نے سال 2019-20کے بجٹ میں تعلیم کا تاریخی بجٹ مختص کرنے کا دعوی کیا،تعلیم کے تاریخ بجٹ سے کتنے نئے سکول بنائے،کتنے بچوں کو لازمی تعلیم دی۔عثمان بزدار کی ناک کے نیچے پیف میں لاکھوں بوگس بچوں کے داخلے کیے گئے،مرادراس اور واصف عباسی نے بوگس داخلوں کے نام کروڑوں کی دیہاڑی لگالی،بزدار صاحب آپ صرف جدید پنجاب کو قدیم پنجاب بنانے کے لئے مسلط کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پنجاب حکومت نے گزشتہ مالی سال کا ترقیاتی بجٹ بھی عیاشیوں پر اڑادیا،گزشتہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ سے ایک بھی گلی تعمیر نہیں کی گئی،واٹس ایپ وزیراعلیٰ ریمورٹ کنٹرول وزیراعظم کے اشاروں پر چلتے ہیں،اب عدالت نے بھی پنجاب حکومت کو وٹس ایپ پر چلنے والی حکومت قراردے دیا ہے،جعلی اور دھندلی زدہ تبدیلی کی حقیقت عوام کے سامنے عیاں ہورہی ہیں۔ڈرامے باز وزیراعظم اور خوشامدیوں کا ٹولہ جلد پکڑ میں آنے والا ہے۔ چینی مافیا اب سلطنت عمرانیہ کو بڑا جھٹکا لگانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ایران میں کورونا وائرس کے کیسز میں ایک بار پھر ہوشربا اضافہ

تہران(سی این پی) ایران میں کورونا متاثرین کی تعداد کم ہونے کے بعد ایک بار پھر بڑھنے لگی جس کے بعد ایران متاثرہ ملکوں کی فہرست میں ایک بار پھر اوپر آ گیا ہے۔ہفتے کو 2200 مزید مریضوں کے ساتھ ایران ترکی کو پیچھے چھوڑ کر
کورونا سے متاثرہ ملکوں میں دسویں نمبر پر آ گیا ہے۔ایرانی صدرحسن روحانی نے کورونا وائرس ٹاسک فورس کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام یہ نہ سمجھیں کورونا 15دن یا مہینے میں ختم ہو جائے گا، ہمیں طویل عرصے تک کورونا وائرس کے ساتھ رہنا ہو گا اور ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔انھوں نے کہا کہ جب تک وزیر صحت نہ کہیں عوام شادی اور سوگ سمیت تمام اجتماعات ختم کر دیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کورونا سے مرتب ہونے والے اثرات کو دور کرنے کے لیے ایران کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں اس لیے معاشی سرگرمیاں جاری رکھنی چاہئیں۔واضح رہے کہ ایران میں کورونا کیسز کی مجموعی تعداد 1 لاکھ 69 ہزار 425 ہوچکی ہے اور اب تک 8 ہزار 209 افرادموت کاشکار بھی ہو چکے ہیں۔

چین نے صدر ٹرمپ کی بھارت کے ساتھ ثالثی کی پیش کش مسترد کر دی

بیجنگ(سی این پی)چین نے بھارت کے ساتھ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پیش کش مسترد کر دی۔ دوسری جانب کورونا ویکسین سے متعلق چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اگر ویکسین بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کے بعد بین الاقوامی تعاون بڑھایا جائے گا۔بیجنگ میں نیوز کانفرنس کے دوران وانگ جی گانگ کا کہنا تھا کہ چین عالمی عوامی بھلائی کے لیے ویکسین کی دستیابی یقینی بنائے گا تاکہ اس سے دنیا بھر میں کورونا مریضوں کا علاج ہوسکے۔ چین کے نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا حکام مسافروں کی ملک میں آمد کے لیے فاسٹ ٹریک داخلے کے انتظامات کر رہے ہیں۔بھارت کے ساتھ تنازع سے متعلق ٹرمپ کی پیشکش پر ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا چین اور بھارت کے درمیان تنازع میں امریکا اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے، کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔واضح رہے کہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے چین اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی تھی، انہوں نے کہا تھا امریکا، چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازع کم کرنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔

محکمہ صحت، محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پیش کئے جانے والی آراء کی روشنی میں ضلع گلگت، ضلع سکردو، ضلع استور اور ضلع ہنزہ میں 14دنوں تک لاک ڈاؤن سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان چار اضلاع میں صرف میڈیکل سٹورز، اشیاء خوردنوش، سبزیوں کی دکانیں اور تعمیراتی شعبے سے منسلک دکانوں کو سخت ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت ہوگی۔ دیگر صوبوں سے گلگت بلتستان میں داخلے پر عائد پابندی برقرار رہے گی اور سختی سے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن

گلگت (پ ر) وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے زیر صدارت کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے حوالے صوبائی رابطہ کمیٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں محکمہ صحت کے ماہرین، قانون نافذ کرنے والے ادارے، آئی جی پی گلگت  بلتستان سمیت تمام متعلقہ محکموں کے نمائندوں نے شرکت کی اور کمشنر  بلتستان، کمشنر دیامر استور، ڈپٹی کمشنر استور ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔اجلاس میں صوبے میں بڑھتے ہوئے کورونا وائرس کے کیسز کے حوالے سے محکمہ صحت کے ماہرین نے اپنی آراء پیش کیں۔ جس کے مطابق عید کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں نرمی اور دیگر صوبوں سے گلگت  بلتستان آنے والوں کی وجہ سے صوبے میں کورونا وائرس کے کیسز میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے ہیلتھ ایڈوائزری کی روشنی میں ضلع گلگت، ضلع سکردو، ضلع استور اور ضلع
ہنزہ میں 14 دنوں کیلئے لاک ڈاؤن سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی توثیق صوبائی کابینہ اور مجاذ فورم سے لی جائے گی۔ دیگر اضلاع کے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے اضلاع کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کے اوقات کار اور طریقہ کار کا فیصلہ کریں۔ صوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ روزانہ 10ہزار سیاح کی گلگت  بلتستان آمد متوقع ہے جس کی وجہ سے کورونا وائرس کے کیسز میں انتہائی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے لہٰذا صوبے میں کورونا وائرس کے کیسز پر قابو پانے تک سیاحت کے شعبے کو کھولنا آفت کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا۔ 
وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی رابطہ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت کے ماہرین،محکمہ صحت، محکمہ داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پیش کئے جانے والی آراء کی روشنی میں ضلع گلگت، ضلع سکردو، ضلع استور اور ضلع ہنزہ میں 14دنوں تک لاک ڈاؤن سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان چار اضلاع میں صرف میڈیکل سٹورز، اشیاء خوردنوش، سبزیوں کی دکانیں اور تعمیراتی شعبے سے منسلک دکانوں کو سخت ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت ہوگی۔ دیگر صوبوں سے گلگت  بلتستان میں داخلے پر عائد پابندی برقرار رہے گی اور سختی سے اس پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ بین الاصوبائی اور بین اضلاعی ٹرانسپورٹ پر عائد پابندی برقرار رکھی جائے گی۔ صوبے میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے این ڈی ایم اے کے تعاون سے تین مزید پی سی آر لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا جارہاہے۔ گلگت، سکردو اور استور میں پی سی آر لیب قائم کئے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محمد آباد ہسپتال اور بسین ہسپتال میں فوری طور پر تمام درکار سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے استور، چلاس سمیت جن علاقوں میں وینٹی لیٹرز موجود ہیں ان کو فوری طور پر فعال کرنے کیلئے سی ایم ایچ اور صوبے کے بڑے ہسپتالوں میں سٹاف کی تربیت کرانے کے احکامات دیئے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ محکمہ صحت کے ماہرین کے آراء کی روشنی میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ موجودہ حالات میں گلگت  بلتستان سیاحت کا شعبہ کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہمیں انسانی جانیں عزیز ہیں سیاحت اور معیشت دوبارہ بحال ہوسکتی ہے لیکن قیمتی انسانی جانوں کا نعیم البدل کچھ نہیں ہوسکتا۔ گلگت  بلتستان کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کیلئے غیر مقبول اور سخت فیصلے کررہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محکمہ تعمیرات اور کمشنر دیامر کو ہدایت کی کہ تھور چیک پوسٹ پر سماجی دوری اور ایس او پیز کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے حوالے سے کئے جانے والے فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ فیصلوں کو صرف کاغذوں کے حد تک نہ رکھا جائے بلکہ سختی سے ان فیصلوں پر عملدرآمد کرایاجائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ کورونا وائرس ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ عوام کو رابطہ کرنے میں آسانی ہو۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبے کے دور دراز علاقوں تک آگاہی مہم کو پھیلانے کی ہدایت کی ہے۔ ہسپتالوں کے او پی ڈی میں غیر ضروری رش کو کم کرنے کیلئے سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ موبائل ہسپتالوں جن میں تمام بنیادی ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے ان موبائل ہسپتالوں کو فعال کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کمشنر  بلتستان کو ہدایت کی کہ  بلتستان میں ماسک کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کمانڈر ایف سی این اے کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے مستحقین کے گھروں تک راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ہدایت کی ہے کہ مستحقین میں راشن کی فراہمی کے عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر دیامر کو بابو سر سے داخلے کے مقام پر چیک پوائنٹ قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے تاکہ بابوسر کے ذریعے دیگر صوبوں سے آنے والے سیاحوں کے آمد کو روکا جاسکے۔

پاکستان میں کرونا کیسز کا گراف مزید بلند، دنیا کا 15 واں ملک بن گیا، 2 ہزار جاں بحق....پنجاب میں 683، سندھ 634، خیبر پختون خوا میں 561، بلوچستان 54، اسلام آباد 49، گلگت بلتستان میں 13 اموات

 اسلام آباد(اے ایف بی) پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا سے اموات کے ساتھ ساتھ نئے کیسز کی شرح میں بھی خوف ناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید 67 افراد کرونا انفیکشن کا شکار ہو کر جاں بحق ہو گئے جب کہ 4,960 نئے کیسز سامنے آئے۔تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی عالمگیر وبا میں پاکستان کیسز کی تعداد کے لحاظ سے 213 مملک میں دنیا کا 15 واں ملک بن گیا ہے، گزشتہ دو دن میں کیسز کا گراف تیزی سے بلند ہوا
جس کے بعد پاکستان 17 ویں نمبر سے 15 ویں نمبر پر آ گیا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری اَپ ڈیٹ کے مطابق نئے اور مہلک وائرس کو وِڈ نائنٹین سے پاکستان بھر میں 98,943 افراد متاثر ہو چکے ہیں، جب کہ اموات کی تعداد 2,002 ہو گئی ہے۔پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے کرونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار کچھ یوں ہے کہ 10 لاکھ آبادی میں اموات کی شرح 8 سے بڑھ کر 9 فی صد ہو گئی ہے، جب کہ 10 لاکھ آبادی میں کیسز کی تعداد بھی بڑھ کر 449 ہو گئی۔ کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے ٹیسٹس کی شرح 10 لاکھ آبادی میں 3,099 ہے۔ملک کے مختلف شہروں میں اس وقت کرونا کے زیر علاج مریضوں کی تعداد 63 ہزار 476 ہے، جب کہ اب تک 33,465 مریض وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔کمانڈ سینٹر کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک میں مزید سڑسٹھ اموات رپورٹ ہوئیں، سب زیادہ اموات پنجاب میں ہوئی ہیں جن کی تعداد 683 ہے، اس کے بعد سندھ میں 634 اموات، خیبر پختون خوا میں 561 اموات، بلوچستان میں 54، اسلام آباد میں 49، گلگت بلتستان میں 13 اموات جب کہ آزاد کشمیر میں 8 موت ریکارڈ ہوئی ہے۔ پنجاب میں کرونا کیسز کی تعداد سب سے زیادہ 37,090 ہو گئی، سندھ میں 36,364 کرونا کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، خیبر پختون خوا میں کیسز کی تعداد 13,001، بلوچستان میں 6,221، اسلام آباد میں 4,979 ہو گئی، گلگت بلتستان میں 927 کرونا کیسز رپورٹ ہوئے، آزاد کشمیر میں کیسز کی تعداد 361 ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں 23 ہزار 100 کرونا ٹیسٹ کیے گئے، این سی او سی کے مطابق ملک میں اب تک کرونا کے 6 لاکھ 83 ہزار 608 ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ سندھ میں 18,265 مریض صحت یاب ہوئے ہیں، پنجاب میں 8,109 مریض، خیبر پختون خوا میں 3,450 مریض، بلوچستان میں 2,175 مریض، گلگلت بلتستان میں 573 مریض، اسلام آباد میں 703 جب کہ آزاد جموں و کشمیر میں 190 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔

وزیر اعظم کا بڑا قدم، پاکستان پوسٹ کے روایی نظام میں انقلابی تبدیلی کا آغاز

اسلام آباد(اے ایف بی) ملک میں ڈیجیٹل فرنچائز پوسٹ آفسز کے پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔  وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں ادارے جدت کے جانب گامزن ہیں، پاکستان پوسٹ کے روایتی نظام میں بھی انقلابی تبدیلی کا آغاز ہونے جا رہا ہے، اس سلسلے میں کل سے ڈیجیٹل فرنچائز پوسٹ آفسز کا پائلٹ پراجیکٹ شروع ہوگا۔ ڈیجیٹل فرنچائز پوسٹ آفسز
سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہترین سہولتیں ملیں گی، یہ ڈیجیٹل فرنچائز صارفین کو 2 سو سے زائد فنانشل سروسز فراہم کریں گے، بلوں اور اسکول فیسوں کی ادائیگی، اندرون و بیرون ملک رقم کی منتقلی بھی ہو سکے گی۔ اس سہولت کے ذریعے صارفین گھر بیٹھے یوٹیلیٹی اسٹورز سے اشیائے ضروریہ بھی منگوا سکیں گے، بھجوائے گئے سامان کی مکمل ٹریکنگ اور آن لائین ٹریسنگ ممکن ہو سکے گی، 3 سال میں ایک لاکھ 25 ہزار ڈیجیٹل فرنچائز پوسٹ آفسز کھولے جائیں گے۔ اس منصوبے سے ڈھائی لاکھ افراد کو براہ راست روزگار ملے گا، پائلٹ پراجیکٹ کے تحت 50 فرنچائز پوسٹ آفسز کل سے آپریشنل ہو جائیں گے، ابتدائی طور پر صرف ڈیڑھ لاکھ روپے سے اسٹارٹنگ کٹس حاصل کی جا سکیں گی۔ڈیجیٹل فرنچائز آن لائن پورٹل اور موبائل ایپ کے ذریعے آپریٹ ہوگی، یہ پوسٹ آفسز صارفین کو ویلیو ایڈڈ سروس بھی فراہم کریں گے۔

وفاقی ترقیاتی پروگرام کے جاری فنڈز کی تفصیلات سامنے آگئیں ...... آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 43ارب56کروڑ کے فنڈ دیے گئے

اسلام آباد(اے ایف بی)رواں مالی سال کے 11ماہ میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے جاری فنڈز کی تفصیلات سامنے آگئیں، سب سے زیادہ پی ایس ڈی پی کی مد میں 584ارب90کروڑ سے زائد کے فنڈ جاری ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق جاری کردہ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ وفاقی وزارتوں کے لیے 245ارب80کروڑ سے زائد کے فنڈدیے گئے، این ایچ اے کے ترقیاتی
منصوبوں کے لیے 173ارب53کروڑ سے زائد جاری ہوئے، سیکیورٹی کی بہتری کے لیے 49ارب73کروڑ سے زائد رقم جاری کی گئی، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 43ارب56کروڑ کے فنڈ دیے گئے۔ دستاویز کے مطابق کابینہ ڈویڑن کے لیے 35ارب16کروڑ سے زائد کے فنڈ جاری کیے گئے، ہائیرایجوکیشن کمیشن کے لیے 28ارب28کروڑ سے زائد کی رقم جاری کی گئی، وزارت آبی وسائل کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 77ارب25کروڑ جاری ہوئے، ریلوے ڈویڑن کے لیے 8ارب67کروڑ سے زائد کے فنڈ کا اجرا کیا گیا۔ دستاویز میں بتایا گیا کہ کے پی میں ضم اضلاع کے10سالہ ترقیاتی پلان کے لیے 23ارب جاری کیے گئے، ضم اضلاع کے دیگر منصوبوں کے لیے 14ارب87کروڑ جاری ہوئے، این ٹی ڈی سی اور پیپکو کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 20 ارب65کروڑ فنڈ کی مد میں دیے گئے، وزارت ریلوے کے لیے 10ارب سے زائد کے ترقیاتی فنڈ جاری ہوئے۔ وزارت قومی تحفظ خوراک کے لیے 8ارب سے زائد کی رقم جاری کی گئی، وزارت قومی صحت کے منصوبوں کے لیے7ارب 56 کروڑ سے زائد جاری ہوئے۔

برین ٹیومر کی 100سے زائد اقسام، ہر رسولی کینسر نہیں ہوتی، باپ میں برین ٹیومر ہو تو بچوں میں منتقل نہیں ہوتا۔۔۔۔پاکستان میں نیورو سرجنز کی شدید کمی، 22کروڑ آبادی کیلئے 350نیورو سرجنز دستیاب ہیں‘پروفیسرخالد محمود کی عالمی دن پر گفتگو

لاہور(این این آئی)پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ برین ٹیومر کی 100اقسام ہیں اور ہر ٹیومر کینسر نہیں ہوتا اگر والد یا بھائی کے دماغ میں رسولی ہو تو یہ بچوں کے لئے خطرہ نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دماغ میں بننے والی رسولیاں انسانی اعظا کو متاثر کر سکتی ہیں ان کی بروقت تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ برین ٹیومر کا علاج صرف نیورو سرجن کے پاس ہے عطاعیوں کے پاس جانے سے گریز کیا کریں۔  ان خیالات کا اظہار انہوں نے”ورلڈ ٹیومر ڈے“ کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ برین ٹیومر کی تشخیص اور علاج معالجہ کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ  میں ہونے والی جدید طرز کی سرجری میں پاکستان کسی طور پر بھی پیچھے نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ دماغ میں 100مختلف اقسام کی رسولیاں پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے چند ایک ہی کینسر کی شکل اختیار کرتی ہیں۔دماغ کی رسولی کی علامات میں سر کا درد، الٹی ہونا، فالج، لقوہ، مرگی کے جھٹکے، بے ہوش ہو جانا و غیرہ شامل ہیں۔ ایسی صورت میں مستند معالج سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ ملک میں نیورو سرجنز کی شدید کمی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ  بائیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل پورے ملک میں محض350نیورو سرجنزدستیاب ہیں جن میں سے 45نیورو سرجنز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔صحت کے شعبے کے لئے حکومتی پا لیسیاں قابل تحسین ہیں تاہم ملکی آبادی کے لئے کم سے کم 1000نیوروسرجنز کا ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تما م بڑے ہسپتالوں میں نیورو سرجری کی تمام سہولیات موجود ہیں۔خواتین اور مردوں میں اس مرض کی شرح یکساں ہوتی ہے مگر جن بچوں کی ریڈی ایشن ہوتی ہے ان میں مرض کے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں دماغی امراض کے علاج معالجے میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسزکا  قیام ایک اہم پیش رفت ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں جدید طریقہ آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ اس طریقہ آپریشن میں ابرو کے درمیان بالوں کے اندر چیرا لگا کر ماتھے کی ہڈی کا چھوٹا ٹکڑا نکال کر دماغ کی رسولی کو کامیابی سے نکالا جاتا ہے۔ بعد ازاں آپریشن کے زخم کا نشان بالوں کے اندر چھپ جاتا ہے۔ اور مریض کے سر پر کوئی نشان موجود نہیں رہتا۔معروف  نیوروسرجن نے واضح کیا کہ دماغی امراض  بالخصوص دماغی رسولیوں کے شکار افراد کو تحصیل اور ضلع کی سطح پر موجود ہسپتالوں سے ریفر ہو کر آنا چاہئے۔ اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب وہاں پر تجربہ کار اور ماہر نیوروسرجن موجود ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دماغ کی رسولی کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب مریض بر وقت مستند اور تجربہ کارمعالج سے رابطہ کرے اور اس کی تشخیص ہو -پروفیسر خالد محمود کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں برین ٹیومر کے حوالے سے کوئی سینٹرل ڈیٹا موجود نہیں جبکہ امریکہ میں ایک لاکھ افراد میں برین ٹیومر کے 22کیسز سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طب کہ شعبے میں جدید ریسرچ اور سرجری کی ترقی کی بدولت آج دماغی بیماریوں کا علاج با آسانی ہو رہا ہے جس سے مریض کی زندگی کا معیار بلند ہوا ہے۔

وفاق کی طرز پر صوبائی حکومتیں بھی غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی لانے پر خصوصی توجہ دیں، عمران خان

 اسلام آباد(این این آئی)وزیر اعظم عمرا ن خان نے ہدایت کی ہے کہ وفاق کی طرز پر صوبائی حکومتیں بھی غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی لانے پر خصوصی توجہ دیں،  صوبائی حکومتیں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صحت کے شعبے کی اپ گریڈیشن پر بھی خصوصی توجہ دیں،غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے اور ترقیاتی اخراجات بڑھائے جائیں، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نجی شعبے کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ہفتہ کو وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت  وفاق اور صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخواہ کے مجوزہ بجٹ برائے مالی سال  21-2020 کے  حوالے سے اعلی سطح کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی، وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز، وزیر برائے صنعت محمد حماد اظہر، وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، مشیران ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ،  عبدالرزاق داود، ڈاکٹر عشرت حسین، سید زوالفقار عباس بخاری، لیفٹننٹ جنرل(ر)عاصم سلیم باجوہ، وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار، وزیر اعلی خیبر پختون خوا محمود خان، وزیر خزانہ پنجاب مخدوم ہاشم جواں بخت، وزیر خزانہ خیبر پختونخواہ تیمور سلیم جھگڑا اورسینئر افسران شریک تھے۔اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار اور وزیر اعلی خیبر پختون خواہ محمود خان کی معاشی ٹیم نے اپنے اپنے صوبوں کے آئندہ مالی سال 2020-21 کے بجٹ کے محصولات، اخراجات اور  بجٹ کے حوالے سے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے صوباء حکومت کی ترجیحات پر تفصیلی بریفنگ دی۔وزیراعظم عمران خان نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے معیشت کے حوالے سے غیر معمولی حالات ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ غیر معمولی حالات میں پیش کیا جا رہا ہے۔  ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ غیر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی کی جائے اور ترقیاتی اخراجات بڑھائے جائیں۔ وزیراعظم نے خصوصی طور پر ان منصوبوں کے حوالے سے ترجیحات مرتب کرنے اور ان ترجیحات کو عملی جامہ پہنانے کی ہدایت کی جن سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور معیشت کا پہیہ بھی تیزی سے چلے۔  وزیراعظم نے کہا کہ جن بڑے شہری علاقوں میں کورونا وائرس کی وبا نے برے اثرات ڈالے ہیں، ان علاقوں میں روزگار کے بھرپور مواقع پیدا کئے جائیں۔ملکی اور صوبائی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے اور ترقیاتی منصوبوں میں نجی شعبوں کی شراکت کو یقینی بنانے کے لئے  وزیرِ اعظم نے اس امر پر زور دیا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نجی شعبے کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ وزیرِ اعظم نے  صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ صنعتی شعبے اور زراعت کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ اس حوالے سے وزیرِ اعظم کو خصوصی اقتصادی زونز  اور زراعت کے شعبے کے فروغ کے لئے بجٹ میں ترجیحات پر بھی خصوصی بریفنگ دی گئی۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ وفاق کی طرز پر صوبائی حکومتیں بھی غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی لانے پر خصوصی توجہ دیں۔ وزیرِ اعظم نے ہدایت کی کہ صوبائی حکومتیں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے صحت کے شعبے کی اپ گریڈیشن پر بھی خصوصی توجہ دیں تاکہ عوام کو صحت کی معیاری سہولیات میسر آ سکیں۔

چین نے سب سے پہلے کورونا ویکسین متعارف کرانے کا منصوبہ بنالیا۔۔۔۔ چین ایسی ویکسین کے ساتھ آگے آیا جسے دنیا نے قبول کرلیا تو تو اس سے بہت زیادہ حاصل کرسکے گا،ٹیم سربراہ

بیجنگ(این این آئی)چین ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا ملک بن سکتا ہے جو ستمبر میں ہی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کو خطرے سے دوچار افراد کے لیے متعارف کراسکتا ہے چاہے اس دوران کلینیکل ٹرائل پر کام ہی کیوں نہ جاری ہو۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کے علاج کو متعارف کرانے کے لیے چین کے طبی حکام نے ویکسینز کے حوالے سے گائیڈلائنز کا مسودہ تیار کرلیا۔کسی بھی ملک کے مقابلے میں چین میں سب سے زیادہ 5 ویکسینز انسانی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ویکسین کی تیاری میں کامیابی سے کورونا وائرس سے متاثر چین کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے گی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ویکسین کی تیاری
کے تیز رفتار منصوبوں کو بھی دھچکا لگے گا۔ویکسین کی تیاری پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک ملکان انسٹیٹوٹ کے ماہر معاشیات ولیم لی کے مطابق اگر چین ایسی ویکسین کے ساتھ آگے آیا جسے دنیا بھر میں قبول کرلیا جاتا ہے تو اس سے بہت زیادہ حاصل کرسکے گا۔کورونا وائرس کے حوالے سے چین کی اہم ترین ویکسین کی تیاری میں سرگرم ٹیم کی سربراہ وائرلوجسٹ چن وائی نے بتایاکہ ہمیں مخصوص شعبوں میں ٹیکنالوجی پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے، ہمیں دیگر کی بجائے اپنی مضبوطی پر انحصار کرنا ہوگا، تاکہ ایک ارب سے زائد کی آبادی کا تحفظ کیا جاسکے۔چن وائی کی سربراہی میں تیار ہونے والی ویکسین کے لیے چین کے ایک فوجی طبی ادارے اور نجی بائیو ٹیک کمپنی کین سینو کے درمیان اشتراک ہوا۔اس ویکسین کے لیے ایک زندہ وائرس کو استعمال کیا جارہا ہے جو ایسے جینیاتی مواد کو انسانی خلیات میں پہنچائے گا، جو وائرس کے خاتمے میں مدد دے گا، درحقیقت یہ کسی روایتی ویکسین کے مقابلے میں زیادہ طاقتور مدافعتی ردعمل کو متحرک کرے گا۔سائنسدانوں کی جانب سے اس ٹیکنالوجی پر دہائیوں سے کام ہورہا ہے خاص طور پر ایچ آئی وی کے حوالے سے، مگر ابھی تک انسانوں اسے آزمانے کی منظوری نہیں دی گئی۔چین میں تیز ترین ٹرائلز کے لیے انتظامیہ کو بہت جلد رضاکاروں کی ضرورت ہوگی کیونکہ اب اس ملک میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ویکسینز کی افادیت جانچنے کے لیے دیگر ممالک میں کام کرنا پڑے۔وائرسز اپنی بقا کے لیے خود کو بدلتے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس وقت جن ویکسینز پر کام ہورہا ہے ان کے حوالے سے اس خطرے کا سامنا ہے کہ وہ تیاری کے بعد موثر یا قابل استعمال نہ ہوں۔انہوں نے مزید کہا کہ وبا کا دورانیہ جتنا زیادہ طویل ہوگا، وائرس کی اقسام کا امکان بھی اتنا زیادہ ہوگا، مگر یہ اقسام انسانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوگی یا کم، اس کا انحصار جینیاتی تبدیلیوں پر ہوگا۔مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ پیشرفت بہت تیزی سے ہورہی ہے، ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر نکولس تھامس کے مطابق بیشتر افراد اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس وائرس کو ہمارے ساتھ بمشکل 7 مہینے ہی ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر سیاسی طور پر جو کچھ بھی ہورہا ہے مگر تیکنیکی سطح پر حیران حد تک شراکت داری اور ڈیٹا شیئرنگ ہورہی ہے۔

لاطینی امریکا کے ملک کورونا وبا کا مرکز بن گئے،عالمی ادارہ صحت۔۔۔۔لاطینی امریکی ممالک میں ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب کیس، 60 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں،بیان

نیویارک(این این آئی)عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ لاطینی امریکا کے ملک دنیا بھر میں کورونا وبا کا نیا مرکز بن گئے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا کہ لاطینی امریکی ملک کورونا کے باعث عائد پابندیاں اٹھانے میں جلدی نہ کریں، اس خطے میں کورونا کے کیس اور اس سے اموات میں دنیا میں سب سے زیادہ
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ لاطینی امریکی ممالک میں ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب کیس ہیں جب کہ وہاں 60 ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ برازیل میں اب تک 6 لاکھ 73 ہزار سے زائد کیس اور 36 ہزار کے قریب اموات ہو چکی ہیں۔ برازیل کورونا مریضوں کی تعداد کے حساب سے دنیا میں دوسرے اور اموات کے معاملے میں تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ فیڈرل یونیورسٹی آف ریو کی تحقیق کے مطابق 20 جون تک برازیل میں کورونا کیسوں کی تعداد 10 لاکھ اور اموات کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ جائیں گی۔ اس کے باوجود برازیل کے شہر ساؤ پالو میں چرچ،کاروں کی دکانوں اور ڈیکوریشن اسٹور کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔میکسیکو میں کورونا کے ایک لاکھ 10ہزار سے زائد کیس جب کہ 13 ہزار اموات ہو چکی ہیں، حکام کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ انتہائی کم ہونے کے باعث کیسز کی اصل تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔ادھر یوروگوئے،کورونا وبا پر قابو پانے میں کام یاب رہا ہے جہاں تقریباً ساڑھے تین کروڑ کی آبادی میں صرف 845کیسز  اور 23اموات ہوئی ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کامیابی کی وجہ قرنطینہ کے بروقت اقدامات،متاثرین کا پتہ لگا کر انہیں آئسولیٹ کرنے کا بہترین نظام شامل ہے۔

اسی فی صد لوگ کرونا خطرے سے دوچار نہیں ہوں گے،برطانوی سائنس دان۔۔۔ آبادی کی اکثریت میں کووِڈ19 سے بچاؤ کے لیے کسی نہ کسی طرح کی پہلے سے قوتِ مدافعت موجود تھی،انٹرویو

لندن(این این آئی)معروف برطانوی نیورو سائنس دان پروفیسر کارل فریسٹن نے دعویٰ کیا ہے کہ 80 فی صد لوگ کرونا وائرس کا شکار نہیں ہوسکتے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انھوں نے ایک انٹرویو میں کرونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے
لیے موجودہ اختیار کردہ پالیسی کے بارے میں اپنے شکوک کا اظہار کیا۔حال ہی میں سائنس دانوں نے اس مفروضے کا اظہار کیا تھا کہ آبادی کی اکثریت کووِڈ19 کا شکار ہوسکتی ہے لیکن اس کی عملی طور پر تصدیق نہیں ہوئی تھی کیونکہ کرونا وائرس کے بیشتر کیسوں میں تو تمام علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔اس لیے اس دعوے کی تصدیق ممکن نہیں ہے جبکہ دنیا کی حکومتوں نے اس کے باوجود کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا تھا۔پروفیسر فریسٹن نے انٹرویو میں کہا کہ آبادی کی اکثریت میں کووِڈ19 سے بچاؤ کے لیے کسی نہ کسی طرح کی پہلے سے قوتِ مدافعت موجود تھی، وہ بروئے کار آئی ہے اور اس مہلک وائرس کا شکار نہیں ہوئی۔