Tuesday, June 16, 2020

بلاول بھٹوزرداری نے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیدیا

 اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری  نے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے کورونا پھیلا،ہم ڈاکٹرز اور سائنس دانوں کو سن رہے تھے،وزیر اعظم اپنی اے ٹی ایمز اور تاجروں صنعتکاروں کو سن رہا تھا،پی ٹی آئی حکومت ہر اس فیصلے اور مشورے کی مخالفت کی جو کورونا وائرس کی وبا کو روکنے میں مددگار تھی،کورونا وائرس کی وبا ملکوں کو توڑ سکتی ہے،ہر پاکستانی کی صحت، زندگی اور معاشی صورتحال اس وبا کی وجہ سے خطرے میں ہے،،غریب کا نام استعمال کرکے امیروں کو فائدہ پہنچایا،یہی بجٹ میں کیا گیا ہے،بجٹ دیکھ کر لگتا ہے کورونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے، بجٹ پاکستان کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، وزیر اعظم کو مزدوروں کی فکر تھی،بتایا جائے کتنے بینکاروں سے ملے کتنے ڈاکٹرز مزدوروں نرسوں فورسز سے ملے،ٹڈی دل،کورونا کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا، مشیر خزانہ مانتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے
ہدایات لیکر بجٹ بنا رہا ہے،وبا میں بھی اسے آئی ایم ایف کی فکر ہے عوام کی نہیں،یہ ظالم حکومت ہے،ہر بجٹ میں تعلیم صحت ہائیر ایجوکیشن بجٹ کاٹ دیتے ہیں،اب کہتے ہیں کرونا سب بہا لے گیا،بتائیں اکنامک سروے تو پہلے بنا تھا اس نے تو ہر چیز تباہ حال بتائی،حکومت خود مانتی ہے آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ معیشت آئی سی یو میں تھی،اب معیشت وینٹی لیٹر پر آگئی ہے،معیشت ٹھیک کرنی ہے تو آئی ایم ایف سے فاصلہ کرنا پڑے گا،جو خان کے دماغ میں آجاتا ہے ملکی پالیسی بن جاتا ہے،این ایف سی اور اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی فالٹ لائنز ہیں،حکومت مشاورت کی بجائے فالٹ لائنز کو چھیڑ رہی ہے،این ایف سی ایوارڈ سے کشمیر کے لیئے فنڈ رکھے جا رہے ہیں جس سے کشمیر کی خودمختاری پر سوال اٹھتے ہیں،جب آزاد کشمیر کو این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کی طرح بٹھاتے ہو تو اثرات سوچے۔وہ منگل کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران اظہار خیال کر رہے تھے۔بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ جناب اسپیکر آپ کو ہاؤس میں صحت یاب دیکھ کر خوشی ہوئی ہے،ہم تاریخ میں اس وقت چیلنجز کے سامنے کھڑے ہیں،ہمیں اندازہ ہونا چاہیئے کہ تاریخ میں ہم کہاں کھڑے ہیں،ہمیں صدی کابڑا چیلینج درپیش ہے،کرونا ملک کو توڑ سکتا ہے،ہر پاکستانی کی معاشی حالت متاثر ہو رہی ہے،ٹڈی دل کا خطرہ ہے،سیلاب کی تباہ کاریوں کی پیش گوئی ہو رہی ہے،افسوس ایسے حالات میں ایسا بجٹ نہیں ہونا چاہیئے،یہ بجٹ کرونا، ٹڈی دل کا مقابلہ نہیں کر سکتا،ہمارا 2020 کا جو بجٹ ہے، وہ ہمارا بجٹ نہیں ہو سکتا ہے،کس نے کہا تھا کہ کرونا صرف زکام ہے،کس نے کہا تھا کہ کرونا وائرس جان لیوا نہیں ہے،کون کہتا تھا کہ گرمیوں میں کرونا خود بخود ختم ہو جائے گا،کس نے کہا تھا کہ لاک ڈاون حل نہیں ہے، آج تک وہ کنفیوز ہے،میں کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کرو  ں،پاکستان میں اس وقت کورونا سے 15 منٹ بعد ایک شخص جان کی بازی ہار رہا ہے،اب تک کم ازکم 2019 پاکستانی انتقال کر چکے،پاکستان میں ڈاکٹر نرسنگ اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے 2 ہزار سے زائد لوگ اس وبا  کا شکار ہو چکے،پھر کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام جاہل ہیں،عوام الیکشن میں آپ کو بتائے گی کون جاہل ہے،آپ کیسے  عوام کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں،آپ نے زبردستی کرونا وائرس  پھیلایا ہے،کورونا وائرس کی وبا ملکوں کو توڑ سکتی ہے،ہر پاکستانی کی صحت، زندگی اور معاشی صورتحال اس وبا کی وجہ سے خطرے میں ہے،پی ٹی آئی حکومت ہر اس فیصلے اور مشورے کی مخالفت کی جو کورونا وائرس کی وبا کو روکنے میں مددگار تھی،آئندہ مالی سال کا بجٹ پاکستان کا نہیں بلکہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے،کیا آپ نے ڈاکٹروں، نرسنگ اسٹاف کے لیے رسک الاؤنسز دیا،گزشتہ سال صدر زرداری مے ٹڈی دل کا معاملہ اٹھایا اب کورونا کا معاملہ اٹھا رہے ہیں،دہشتگردی سے ہمارے لوگ شہید ہورہے،جب تک ارمی پبلک اسکول میں بچے شہید نہیں ہوئے کسی نے بات نہیں مانی،ٹڈی دل پر نیشنل ایکشن پلان بنا لیکن کوئی عملدرآمد نہیں ہوا،کیا حکومت چاہتی ہے سارے کھیت تباہ ہوجائیں اور کسان کا معاشی قتل ہو؟انتہا پسندی کے بارے میں ہم نے آپ کو خبردار کیا تھا،صدر زرداری نے ٹڈی دل پر خبردار کیا تھا،دہشتگردی میں ہم مارے گئے،جب تک اے پی ایس کا واقعہ نہیں ہوا تھا کوئی ہماری بات نہیں مانتا تھا،ہم چیخ چیخ کر بول رہے تھے کہ یہ خطرات ہیں،ہم فروری سے کرونا کا واویلا مچا رہے ہیں،آپ ہماری بات نہیں مان رہے تھے،اب ہمارے وفاق کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے،ہم نے کرونا پر حکومت کو تعاون کی آفر کی،ہم نے سیاست سے بالاتر ہو کر پاکستان کا سوچا،ہم نے لاک ڈاون کی درخواست کی تھی،اب جب کورونا پھیل گیا تو بجٹ میں وبا سے پھیلنے کی کیا تیاری کی جا رہی ہے؟کیا کورونا سے نمٹنے کیلئے بجٹ میں صحت بجٹ میں اضافہ کیا گیا؟بجٹ دیکھ کر لگتا ہے کورونا کا کوئی خطرہ نہیں ہے،ہم نے مطالبہ کیا کہ ڈبلیو ایچ او کی سفارشات پر عمل کریں مگر ایسا نہیں کیا گیا،ڈاکٹرز اور نرسز اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر ہماری جان بچا رہے ہیں،اگر ہم لاک ڈاؤن کو عید کے آخر تک جاری رکھتے، تو کم ازکم اپنے دیہات بچا سکتے،ہم اس وائرس کو بڑے شہروں تک پھیلنے سے روک سکتے تھے،لیکن ہمارا وزیراعظم اپنے اے ٹی ایم کی بات سن رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی پورا پاکستان ہمیشہ کے لئے بند کرنے کا نہیں کہا،ہم ڈاکٹرز اور سائنس دانوں کو سن رہے تھے،وزیر اعظم اپنی اے ٹی ایمز اور تاجروں صنعتکاروں کو سن رہا تھا،ہماری تعاون کی پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا گیا،ہم نے اٹلی سے بھی نہیں  سیکھا،ہم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بھی نہیں سیکھا،غریب ممالک بھی کرونا کا مقابلہ کر رہے ہیں،ویت نام چھوٹا ملک ہے لیکن ایک بھی شہری کورونا کے باعث ہلاک نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے ان قوم بن کر مقابلہ کیا،ہماری حکومت نے چین،وڈبلیو ایچ ا وکی سفارشات کو بھی نظرانداز کیا،ہم نے صرف 92 کا ورلڈ کپ جیتا ہے،اندازہ تھا عید سے قبل عوامی اجتماعات انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔بلالو بھٹوزرداری نے کہا کہجن ممالک نے وقت پر اقدامات اٹھائے گئے وہاں آج کورونا پر قابو پالیا گیا ہے،ہمارا کورونا کا وزیر سویڈن کی مثالیں دے رہا ہے،سویڈن میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں،یورپین ممالک میں سب سے زیادہ نقصان سویڈن کا ہوا،اب بھی ڈبلیو ایچ او کی تجاویز دی جا رہی ہیں جس سے عوام کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے،اب بھی عوام سے امید کی گئی کہ وہ خود احتیاط کریں گے تو معاشی اور انسانی نقصان کی بہت خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے،اگر وزیر اعظم کو مزدوروں کی فکر تھی،بتایا جائے کتنے بینکاروں سے ملے کتنے ڈاکٹرز مزدوروں نرسوں فورسز سے ملے،سوائے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بند کرنے کے،غریب کا نام استعمال کرکے امیروں کو فائدہ پہنچایا،یہی بجٹ میں کیا گیا ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ پندرہ سے بیس ملین لوگوں کے لئے کیش ٹرانسفر کرنا پڑے گا،ٹڈی دل کے لئے کچھ نہیں رکھا گیا،یہ بجٹ پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ ہے،آپ کا مشیر خزانہ مانتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے ہدایات لیکر بجٹ بنا رہا ہے،وبا میں بھی اسے آئی ایم ایف کی فکر ہے عوام کی نہیں۔سندھ میں کرونا آرڈیننس نافذ ہے،کرونا آرڈیننس کے دوران آپ کسی کو بے روزگار نہیں کر سکتے،آپ کو مزدوروں کو تنخواہیں دینا ہوں گی،اسٹیل ملز کی زمین سندھ کی ہے،آپ سندھ سے پوچھے بغیر کیسے فیصلہ کر سکتے ہو،آپ کو مزدوروں کو کورونا کے دوران بے روزگار کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے،کہتے ہیں پانچ ارب ڈالر واپس کردیا،نئے قرضے سے پرانا قرض اتارا ہے،سب سے کم گروتھ اور سب سے زیادہ ٹیکس یہ ہے نیا پاکستان،کس نے کہا نیا ٹیکس نہیں لگا،آپ نے امیروں پر ٹیکس لگاتے،آپ نے سب سے بالواسطہ ٹیکس لگائے جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے،سیلز ٹیکس کم کرتے،یہ حکومت عوام کو تکلیف امیروں کو ریلیف دیتی ہے،تنخواہیں تک نہیں بڑھائیں،ہم نے کئی کئی گنا پینشن تنخواہیں بڑھائیں۔ کاٹنا ہے تو وزیروں کی تنخواہیں کاٹیں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کی تنخواہیں تو نہ کاٹیں،سندھ میں 800پولیس اہلکار لاک ڈاون کرتے کرونا کا شکار ہوگئے،ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں،وزیر اعظم روز ٹی وی پر مزدوروں کی باتیں کرتے ہیں مگر انہیں ہی بیروزگار کردیا،ڈی سی سے لیکر نیچے تک سب کام وہ کرتے ہیں مگر تنخواہیں نہیں بڑھائیں،یہ ظالم حکومت ہے،یہ کرونا کے دوران سابق فاٹا کے فنڈز ضبط کرتے ہیں،پختونخواہ کو آج بھی بجلی کا خالص منافع نہیں دیا جارہا ہے،ہر بجٹ میں تعلیم صحت ہائیر ایجوکیشن بجٹ کاٹ دیتے ہیں،اب کہتے ہیں کرونا سب بہا لے گیا،بتائیں اکنامک سروے تو پہلے بنا تھا اس نے تو ہر چیز تباہ حال بتائی،حکومت خود مانتی ہے آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ معیشت آئی سی یو میں تھی،اب معیشت وینٹی لیٹر پر آگئی ہے،معیشت ٹھیک کرنی ہے تو آئی ایم ایف سے فاصلہ کرنا پڑے گا،جو خان کے دماغ میں آجاتا ہے ملکی پالیسی بن جاتا ہے،حکومت کرونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہی ہے،کرونا کے نام پر جو رقم جمع کی گئی وہ آئی پی پیز کو دے رہے ہو،کرونا کے لئے 100کی بجائے 70 ارب روپے رکھے گئے،ان کے ارکان ان پیسوں سے اپنے ترقیاتی کام کرارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آپ آج سندھ کے ہسپتال چرانا چاہتے ہیں،ہمارا سندھ کا واحد ہسپتال ہے جہاں سب سے زیادہ دل کے آپریشن  ہوتے ہیں،آپ کو پی پی پی کے منصوبے چوری کرنے کی فکر لگی رہتی ہے،ہم اپنے منصوبے آپ کو چوری نہیں کرنے دیں گے،ہم نے سال دوہزار نو سے صوبائی ٹیکس سات گنا زیادہ اکٹھا کیا ہے،این ایف سی اور اٹھارہویں ترمیم پاکستان کی فالٹ لائنز ہیں،حکومت مشاورت کی بجائے فالٹ لائنز کو چھیڑ رہی ہے،بجٹ میں ٹڈی دل کیلئے دس ارب اور ڈیم کے لیے اسی ارب رکھتے ہیں،این ایف سی ایوارڈ سے کشمیر کے لیئے فنڈ رکھے جا رہے ہیں جس سے کشمیر کی خودمختاری پر سوال اٹھتے ہیں،جب آزاد کشمیر کو این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کی طرح بٹھاتے ہو تو اثرات سوچے،غیر قانونی این ایف سی ایوارڈ نوٹیفیکیشن واپس لے ورنہ نتائج برے ہوں گے،یہ بجٹ نہ کرونا کے لئے نہ معیشت کے لئے ہے۔

No comments: