Wednesday, June 10, 2020

پلاننگ کمیشن ترقیاتی بجٹ گلگت بلتستان پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ریلیز کرے تاکہ ترقیاتی منصوبے متاثر نہ ہو، گلگت بلتستان میں میڈیکل کالج کے منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے، 2016 کے فیصلے میں این ایف سی ایوارڈ کے 3فیصد میں فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا این ایف سی ایوارڈ کے 3فیصد میں گلگت بلتستان کوبھی شامل کیا جائے،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے اظہار خیال

گلگت (پ ر)وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گلگت  بلتستان واحد صوبہ ہے جو ترقیاتی بجٹ معاشی اصولوں کے مطابق 100 فیصد استعمال کررہا ہے۔ گلگت  بلتستان میں صوبائی حکومت کے تمام ترقیاتی منصوبے مقررہ مدت سے قبل مکمل ہورہے ہیں لیکن پی ایس ڈی پی کے فنڈز کا استعمال اور منصوبے وزارت امور کشمیر و گلگت  بلتستان کی ذریع ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پی ایس ڈی
پی کے منصوبوں کا فنڈز گزشتہ سال صرف 45 فیصد خرچ ہوسکا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی سابق وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی منصوبوں پر 100 فیصد بجٹ استعمال کو یقینی بنانے اور منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے پی ایس ڈی پی منصوبوں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کا اختیار چیف سیکریٹری گلگت  بلتستا ن کو دینے کا فیصلہ کیا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہورہے ہیں۔ لہٰذا سابق وفاقی حکومت کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور چیف سیکریٹری گلگت  بلتستان کو پی ایس ڈی پی منصوبوں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر  بنایا جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ حکومت گلگت  بلتستان نے صوبے کے بجٹ میں دو ارب روپے کے اضافے کیلئے ڈیمانڈ وفاقی حکومت کو بجھوائی تھی کیوں کہ گلگت  بلتستان رقبے کے اعتبار سے خیبرپختونخواہ کے برابر ہے۔ گلگت  بلتستان میں قدرتی آفات کا بہت زیادہ خطرہ موجود رہتا ہے جس کی وجہ سے پاور ہاؤسز، پلوں، سڑکوں سمیت عوامی نوعیت کے اہم منصوبے تعمیر کرنے کے بعد قدرتی آفات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت  بلتستان حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بل منظوری کرکے وزارت امور کشمیر و گلگت  بلتستان بھجوا دیا ہے جس کے نوٹیفکیشن کے اجراء میں غیرضروری تاخیر کیا جارہاہے۔ جس کی وجہ سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت منصوبوں کی تعمیر نہیں کر پارہے ہیں۔لہٰذا متعلقہ وزارت کو ہدایت کی جائے کہ نوٹیفکیشن کے اجراء کو غیرضروری طور پر تاخیر کا شکار نہ کریں اور فوری طور پر پبلک پرائیویٹ پاٹنر شپ ایکٹ کے اجراء کو یقینی بنایا جائے۔ گلگت  بلتستان میں 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ اگر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ایکٹ کو وزارت امور کشمیر وگلگت  بلتستان نوٹیفائیڈ کرے تو صوبے میں موجود بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے استعفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ گلگت  بلتستان کو 50 اور 60 میگاواٹ کے پاور پروجیکٹس کا اختیار دیا جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ2012 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت  بلتستان کونسل نے ایک غلط ایکٹ پاس کیا تھا اس ایکٹ کے تحت گلگت  بلتستان میں جو ہائیڈرل پاور پروجیکٹس تعمیر کئے جائیں گے ان کا نیٹ ہائیڈرل پروفٹ گلگت  بلتستان کوملنے کے بجائے وفاق کو دینے کا پابند کیا گیا تھا اس قسم کا ایکٹ کسی صوبے پر لاگو نہیں ہے جس کی درستگی کیلئے وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود اب تک درستگی نہیں ہوسکی لہٰذا فوری طور پر اس ایکٹ کو ترمیم کیا جائے اور نیٹ ہائیڈرل پروفٹ وفاق کو دینے کی شرط ختم کی جائے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ گلگت  بلتستان نیشنل گریڈ سے منسلک نہیں ہے۔ گلگت  بلتستان میں ایک میگاواٹ بجلی واپڈا پیدا نہیں کررہاہے۔ صوبے میں تمام پاور پروجیکٹس صوبائی حکومت اپنے بجٹ سے تعمیر کررہی ہے۔ صوبائی حکومت کے بجٹ کا 36 فیصد پاور سیکٹرپر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے گلگت  بلتستان میں سوشل اکنامک سیکٹر متاثر ہوتا ہے۔ لہٰذا پی ایس ڈی پی میں 32 میگاواٹ عطاء آباد ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور 26 میگاواٹ شغرتھنگ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو شامل کیا جائے۔ ان منصوبوں کی فزیبلٹی تیار ہوچکی ہے اور فنانسنگ کیلئے بھی اکنامک افیئر ڈویژن میں تمام کاغذی کارروائی مکمل کی جاچکی ہے مگر ان منصوبوں کو پی ایس ڈی پی سے نکال دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ سی پیک میں گلگت  بلتستان کو کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی سابق دور حکومت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جب تک سی پیک سے گلگت  بلتستان کو کوئی منصوبہ نہیں دیا جاتا تب تک کیلئے گلگت  بلتستان کو پی ایس ڈی پی سے بڑی سکیمیں دی جائیں گی تاکہ گلگت  بلتستان کے سوشل اکنامک سیکٹر کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے اور عوام میں مایوسی پیدا نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسن آباد ششپر گلیشئر 13کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کے پھٹنے کا خدشہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے اور کئی مہینوں تک شاہراہ قراقرم کا رابطہ معطل رہ سکتا ہے لہٰذا متبادل شاہراہ کے طور پر شاہراہ نگر کی تعمیر کی شد ضرورت ہے۔ شاہراہ نگر کو بھی پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے جس کی تعمیر سے شاہراہ قراقرم کا متبادل راستہ میسر آئے گا۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے گلگت  بلتستان میں ٹرانسپورٹ اور ہوٹل انڈسٹری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے 200 ارب روپے انڈسٹریز کو سبسڈائزڈ لون دینے کیلئے مختص کئے گئے ہیں اس میں گلگت  بلتستان کے ٹرانسپورٹ اور ہوٹل انڈسٹری کو شامل کیا جائے اور سٹیٹ بینک کو ہدایت کی جائے کہ ٹرانسپورٹ اور ہوٹل انڈسٹری کو سبسڈائزڈ لون فراہم کئے جائیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ 2016 کے فیصلے میں این ایف سی ایوارڈ کے 3فیصد میں فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت  بلتستان کو شامل کیا گیا تھا۔ لہٰذا این ایف سی ایوارڈ کے 3فیصد میں گلگت  بلتستان کوبھی شامل کیا جائے۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ پلاننگ کمیشن آف پاکستان سے صوبیوں کو ریلیز ہوتا ہے لیکن گلگت  بلتستان کیلئے سالانہ ترقیاتی بجٹ پلاننگ کمیشن سے گلگت  بلتستان پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ریلیز کرنے کے بجائے وزارت امور کشمیر و گلگت  بلتستان کو ریلیز کیا جاتا ہے۔ گلگت  بلتستان پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ریلیز حاصل کرنے کیلئے وزارت امور کشمیر و گلگت  بلتستان رابطہ کرنا پڑتا ہے جس میں تاخیر ہوتی ہے۔ لہٰذا سابق وفاقی حکومت کے فیصلے کو جاری رکھتے ہوئے پلاننگ کمیشن ترقیاتی بجٹ گلگت  بلتستان پلاننگ ڈیپارٹمنٹ کو ریلیز کرے تاکہ ترقیاتی منصوبے متاثر نہ ہو۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گزشتہ چار مہینوں سے کورونا وائرس کی وجہ سے صوبائی حکومت کی تمام توجہ کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے اقدامات مرکوز رہی اور ترقیاتی منصوبے ان چار مہینوں میں متاثر ہوئے اور اب الیکشن شیڈول کے اجراء سے قبل غیرقانونی طور پر ترقیاتی منصوبوں پر قد غن لگادیا گیا ہے اور آفیسران کو پابند کیا گیا ہے وہ ترقیاتی منصوبوں پر کام نہ کریں جس کی وجہ سے گلگت  بلتستان میں تعمیر و ترقی کا پہیہ پوری طور پر رک چکا ہے۔ اے ڈی پی کے منصوبوں پر بھی کام نہیں ہورہاہے۔ ان منصوبوں کی ایڈمنسٹریٹیو اپرول روک دی گئی ہے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت  بلتستان میں ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔ 2017-18کے پی ایس ڈی پی میں میڈیکل کالج کا منصوبہ شامل تھا اور پی سی ون بھی تیار کیا گیا تھا میڈیکل کالج کیلئے زمین بھی فراہم کی گئی تھی۔حکومت گلگت  بلتستان کے 8 کروڑ روپے کی فزیبلٹی رپورٹ پر خرچ ہوئے ہیں لیکن اس منصوبے کو پی ایس ڈی پی سے نکالا گیا۔ لہٰذا گلگت  بلتستان کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میڈیکل کالج کے منصوبے کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے تاکہ صوبے میں ڈاکٹرز کی کمی کو دور کیا جاسکے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے آسامیوں کی تخلیق کیلئے وفاقی حکومت کو درخواست کی ہے وفاقی حکومت ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کے آسامیوں کی تخلیق دے تاکہ موجودہ حالات میں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی دور کی جاسکے۔ وزیر اعلیٰ گلگت  بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم پر کام کا آغاز ہورہا ہے جس کیلئے زمین کی خریداری کا عمل صوبائی حکومت نے پہلے ہی مکمل کرلیا ہے۔ متاثرین کی آبادکاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذا وفاقی حکومت چیئرمین واپڈا کو ہدایت کرے کہ فوری طور پر متاثرین کی آبادکاری کیلئے اقدامات اٹھائیں اور ضلع دیامر میں ایک ٹیکنیکل کالج کا قیام بھی عمل میں لایا جائے تاکہ ڈیم کیلئے درکار ٹیکنیکل سٹاف کی درستیابی ہوسکے اور ضلع دیامر کے عوام کی محرومیوں ازالہ ہوسکے۔

No comments: