Monday, June 15, 2020

آئی ایم ایف کے کہنے پر پینشن اور تنخواہوں کوفریز کیا گیا،موجودہ بجٹ میں عام آدمی کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے، اصل بجٹ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہوا ہے، اس بجٹ میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ہے،دسویں این ایف سی ایوارڈ کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے، اپوزیشن سینیٹرز میاں رضا ربانی، شیری رحمان اور سینیٹر عبدالقیوم و دیگر کا اظہار خیال

اسلام آباد(آئی این پی)سینیٹ میں اپوزیشن نے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر پینشن اور تنخواہوں کوفریز کیا گیا،موجودہ بجٹ میں عام آدمی کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے، اصل بجٹ آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہوا ہے، اس بجٹ میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ہے،دسویں این ایف سی ایوارڈ کا نوٹیفکیشن غیر آئینی
ہے، وفاق یہ چاہتا ہے کہ اس کے خرچے صوبے اٹھائیں، یہ مزدور دشمن حکومت ہے، اس حکومت کے دور میں مافیا پروان چڑھ رہے ہیں،حکومت نے زرعی سیکٹر کو نظر انداز کیا ہے، جی ڈی پی کا چھ سو بلین ٹڈی دل لے کر جائے گی،ایک سال سے ہم وارننگ دے رہے ہیں، بجٹ میں ایسا لگتا ہے کوئی کوویڈ اور ٹڈی دل نہیں ہے، یہ بجٹ نہیں کٹ اینڈ پیسٹ ہے، اس سال دو اور بجٹ آئیں گے،ہیلتھ کا بجٹ ناکافی ہے،بجٹ میں نہ تنخواہ بڑھی نہ پینشن بڑھی، تنخواہ کو کم از کم دس فیصد بڑھنا چاہیئے،ان خیالات کا اظہار سینیٹ میں بجٹ پر بحث کرتے ہوئے اپوزیشن سینیٹرز میاں رضا ربانی، شیری رحمان اور سینیٹر عبدالقیوم نے کیا۔پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا،اجلاس کے دوران بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سارا ملک پارلیمان کی طرف دیکھ رہا ہے،حالات بہت مشکل ہیں، لوگ اس وقت ہسپتالوں کے باہر کھڑے ہیں،ہسپتالوں پر اتنا دباؤ ہے،ہیلتھ سیکٹر کی اسٹرکچرل کمزوریاں نظر آرہی ہیں،کورونا سے اموات 3 لاکھ سے زیادہ ہوں گی اگر ایکشن نہ لیاگیا، کون پاکستان کا انچارج ہے یہ کسی کو پتہ نہیں چل رہا، وزیر اعظم پارلیمان میں نہیں آتے، وہ وزیر صحت ہیں، انہوں نے کہہ دیا ہے اب میں سختی کروں گا،ایس او پیز کی کیسے عزت ہو گی جب سینیئرلوگ بغیر ماسک کے پھر رہے ہیں، سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ لوگ حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں لاکھ ڈاؤن کا بھی وقت گزر گیا، جن پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے وہ غریب ہوتے ہیں، ملک کو کنفیوز کیا گیا،پہلے کہا گیا فلو ہے، میں کہہ رہی ہوں گھبرانا بہت ضروری ہے، خوفناک تاریک گڑھے کے سامنے ہم کھڑے ہیں، لاک ڈاؤن سے اموات کم ہو سکتی ہیں، یہ کوویڈ بجٹ نہیں ہے، اس وقت ملک میں 1279 ہسپتال ہیں، کوئی نئے ہسپتال اس
حکومت نے نہیں بنائے، شیری رحمان نے کہا کہ اسٹیل مل میں سے نو ہزار لوگوں کو نکالاجارہا ہے،بی آئی ایس پی میں کٹوتی ہوئی ہے، کنسٹرکشن سیکٹر کو کتنا نوازا جارہا ہے، یہ گھر کون خریدے گا؟بار بار اسد عمر کہتے ہیں بھارت میں بھی اتنی اموات ہوئی ہیں آپ دنیا کا حوالہ کیوں دے رہے ہیں؟ شیری رحمان نے کہا کہ اس سال دو اور بجٹ آئیں گے، 12 ہزار ارب اس حکومت نے قرضہ لیا ہے، ان سے کون خوش ہے؟ حکومت نے زرعی سیکٹر کو نظر انداز کیا ہے، جی ڈی پی کا چھ سو بلین ٹڈی دل لے کر جائے گی،ایک سال سے ہم وارننگ دے رہے ہیں، بجٹ میں ایسا لگتا ہے کوئی کوویڈ اور ٹڈی دل نہیں ہے، حکومت سے دو چار بزنس مین خوش ہیں جن کو یہ نوازتے ہیں، یہ بجٹ نہیں کٹ اینڈ پیسٹ ہے، مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ بجٹ فرانسیسی زبان کا لفظ ہے، یہ ایک پالیسی اسٹیٹمنٹ ہوتی ہے، ترقیاتی بجٹ ن لیگ کے دور میں ایک ٹریلین سے زیادہ تھا، سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا ایک کروڑ نوکریاں دیں گے، 50 لاکھ لوگ اور غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، ہیلتھ کا بجٹ ناکافی ہے،بجٹ میں نہ تنخواہ بڑھی نہ پینشن بڑھی، تنخواہ کو کم از کم دس فیصد بڑھنا چاہیئے،رینیوایبل انرجی کی طرف جائیں، 52 مشیر اور منسٹر ہیں، جسے سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین لگایا ہے اسے ساتھ انفارمیشن منسٹری میں بھی لگایا ہے، گورننس کو بہتر کریں، سینیٹر میاں رضاربانی نے کہا کہ موجودہ بجٹ میں عام آدمی کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے، اصل بجٹ
آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا ہوا ہے، اس بجٹ میں کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ہے، پیٹرول کابحران چل رہا ہے، آئی ایم ایف کے کہنے پر پینشن اور تنخواہوں کوفریز کیا گیا یہ آئی ایم ایف کی شرط تھی کہ فریز کر دو اور حکومت نے کر دیا، میاں رضا ربانی نے کہا کہ ڈیم کا ٹینڈر ایک ممبر آف کیبنٹ کو دے دیا گیا، نجکاری کی بات ہو رہی ہے، یہی ایڈوائزر تھے جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی گئی، سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی گئی، اتصالات نے بقایا جات ابھی تک دینے ہیں، اس حکومت کے دور میں مافیا پروان چڑھ رہے ہیں، اب نیا آئل مافیا ہے، آج تک علم نہیں ہیکہ آئی ایم ایف کی شرائط کیا ہے؟ پیٹرول کا بحران آج کا نہیں ہے، وفاقی حکومتیں قرضے لیتی رہیں لیکن پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، دسویں این ایف سی ایوارڈ کا نوٹیفکیشن غیر آئینی ہے،میاں رضا ربانی نے کہا کہ وفاق یہ چاہتا ہے کہ اس کے خرچے صوبے اٹھائیں،جس دن بجٹ کا اعلان ہوا اس دن دو پوسٹوں کو کابینہ ڈویژن گریڈ 21 سے گریڈ 22 میں لے جاتی ہے، پیسے نہیں ہیں تو کلرک کے لیئے نہیں، گریڈ اور22 کے لیئے موجود ہیں، یہ مزدور دشمن حکومت ہے،پتہ نہیں کتنے لوگوں کوبے روزگار کر دیا ہے، پاکستان میں انڈسٹریل ورکر سانس نہیں لے سکتا، رکشے والا، ٹھیلے والا سانس نہیں لے سکتا۔

No comments: