Monday, June 15, 2020

نیا پاکستان بنانے کے نعرے کے پیچھے ملک و قوم کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد(آئی این پی)جمعیت  علمائے اسلام کے رہنمامولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ   موجودہ مالی سال کا بجٹ مکمل طور پر ناکام تعین بجٹ ہے جس میں معاشی ترقی، تعلیم اندرونی اور بیرونی خدشات کو مدنظر نہیں رکھا گیا(ن) لیگ کے حکومت نے جو آخری بجٹ دیا تھا اس میں شرح نمو 6 فیصد دی تھی جبکہ موجودہ حکومت ہر معاملے میں ناکام ہو چکی ہے۔   پیرکو وفاقی  بجٹ سے متعلق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں سالانہ شرح نمو 0.4 بتایا
گیا ہے پاکستان کے تاریخ میں کبھی جی ڈی پی کی شرح زیرو پر  نہیں آئی  ہے،حکومت اپنی تمام تر ناکامیاں کرونا کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ جنوری 2020 کے اختتام پر معاشی ماہرین نے بتایا تھا کہ معاشی پہیہ جام ہوچکا ہے یہ حقائق کرونا سے قبل کے ہیں بجٹ ہمیشہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے مقررہ احداف کے حصول کے لائن کا درس دیتا  ہے تاریخ میں بجٹ خسارہ 5 سے 6 فیصد رہا ہے  موجودہ مالی سال کے بجٹ کے دوران یہ خسارہ 9 فیصد سے بڑھ چکا ہے یہ خسارہ 11 فیصد تک جانے کا اندیشہ موجود ہے حکومت اپنے اخراجات اور ٹیکس کے حصول میں ناکام ہو چکی ہے  موجودہ حکومت کی وجہ سے شرح سود 13 فیصد پر چلے گئے تحریک انصاف کے حکومت نے کمرشل قرضوں پر انحصار کیا ہے حکومت کا عوام پر اعتماد نہیں رہاحکومت پر عدم اعتماد کی وجہ سے عوام ٹیکس ادا نہیں کر رہی ہے عوام کو پتہ ہے کہ حکومت کا کوئی بھروسہ نہیں کہ ان کا ٹیکس کہاں استعمال کیا جائے گاموجودہ حکومت کی زراعت اور صنعت آخری سانسیں لے رہے ہیں نیا پاکستان بنانے کے نعرے کے پیچھے ملک و قوم کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ان کا کہنا تھا کہ قومی وسائل کو استعمال میں نہیں لایا جا رہا2 سالوں میں قرضوں جتنا قرضہ لیا گیا اتنا شاید پاکستان کے تاریخ میں لیا گیا ہوملک کی کشتی آخری ہچکولے کھا رہی ہے  تاریخ بڑی بے رحم ہے اپنی یاد دلاتی رہتی ہے جس ملک کی معیشت زوال پزیر ہو جائے تو اس کو سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے ہر سال بجٹ کا حجم اور محصولات کی شرح بڑھتی ہے لیکن یہاں تو منظر ہی الٹ ہے غربت اور بے روزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے ملک کی موجودہ حالات  حکومت کے لئے الرٹ کال ہے اور عوام میں تحریک پیدہ کرنے کی نشانی ہے اس سال 2 کروڑ تک لوگ بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے مہنگائی کا تقاضہ تھا کہ سرکاری ملازمین کو ریلیف دیا جاتا لیکن ان کو بھی نظر انداز کیاصنعت کا شعبہ بھی مکمل طور بند ہونے کے دھانے پر ہے 2019.20 کے بجٹ میں صوبوں کے 3 ہزار 200 جبکہ موجودہ بجٹ میں 2 ہزار 8 سو رکھے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ صوبوں کو طے شدہ حصہ مقررہ وقت پر نہیں ادا کیا جاتاصوبوں کو اپنے اخراجات پورے کرنا ناممکن نظر آ رہا ہے جبکہ وفاق سے کسی خیر کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہیمولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن جماعتوں سے شکوہ  کرتے ہوئے کہاہم بار بار کہتے رہے کہ حکومت کو اس بجٹ سے قبل ہی اتار دینا چاہیے اپوزیشن نے بھی وہ کردار ادا نہیں کیا جو ادا کرنا چا ئیے اب وقت آہ گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ ملک کو بچانے کے لئے اس حکومت سے جان چھڑائے  اپنوں سے شکوہ ہوتا ہے حکومت کا قایم رہنا اپوزیشن جماعتوں کے ناکام کارکردگی کی وجہ سے بر قرار ہے قوم اور سیاسی جماعتی حکومت  کو جلد گیرا کر دکھائیں گے۔

No comments: