Sunday, June 7, 2020

پاکستان میں تحقیق کے نئے دریچے۔ویب آف سائنس کی رپورٹ

دنیا میں تحقیق کی اشاعت کے حوالے سے ویب آف سائنس کی ایک انتہائی مستند اور قابل قدر حیثیت ہے۔ڈاکٹر ایگن گار فیلڈ نے دنیا میں پہلی دفعہ تحقیق کے لئے حوالہ دینے یعنی citation indexکی بنیاد پر ایک قابل اعتماد اور مستند ریسرچ انجن "ویب آف سائنس''کا آغاز کیا۔اس وقت اس پلیٹ فارم پر تقریبا 107کھرب تحقیقی حوالے اور 16کروڈ کے قریب ریکارڈ موجود ہیں۔آج 9000سے زیادہ سرکاری و نجی اور حکومتی تحقیقی ادارے اس پلیٹ فارم کی افا دیت سے استفادہ کرتے ہوئے،ہزاروں محقّین کو ویب آف سائنس پر موجود ذرائیے اور مواد سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تیارکر رہے ہیں۔حال ہی میں اس موئثر ادارے نے پاکستان میں تحقیق کی اشاعت اور اس کے معیار کے حوالے سے رپورٹ طبع کی ہے جس کے اہم نکات قارئین کی پیش نظر ہیں۔
۱۔پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تحقیق کیلئے موافق میدان پیدا کرنے میں اہم پیش رفت ہو رہی ہے۔اس ضمن میں تحقیقی پیداواریت کے حوالے سے تین اہم اعشائے کافی حوصلہ افزا ء ہیں۔2019کے دوران پاکستان کے سائنسدانوں کی طرف سے ویب آف سائنس  میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔پچھلے دس برسوں میں ان تحقیقی مقالوں میں آرہے سے زیادہ مقالات ایسے مجلوں میں شاع ہو رہی ہیں۔جن کی باقائدہ ایمپکٹ فکٹر ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستانی محققین کی طرف سے شائع ہونے والے زیادہ تحقیقی مقالات دنیا کی بہترین مجلوں میں ہو رہی ہے۔اس ضمن میں پاکستانی سائنسدانوں کی مطبوعہ تحقیق سے دنیا کے سائنسدان استفادہ کرتے ہوئے ان کے تحقیق کے حوالے بھی دے رہے ہیں۔اور ان حوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ان اعشاریوں کی بنیاد پر پاکستان دنیا میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت کی بنیاد پر 44ویں نمبر پر آتا ہے۔اور ان مقا لوں کی سب سے زیادہ حوالہ دینے کی ضمن میں 43ویں نمبر پر آتا ہے جو کہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔
۲۔ بین الاقوامی تحقیق اور ان کی بنیاد پر طبع ہونے والی مقالات کی عصری تقاضوں اور مسائل سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے کسی بھی اچھی طبع شدہ تحقیقی مقالے کی معیاریت اور مناسبت کا ایک اعشاریہ و اس مقالے کی دنیا کی چوٹی کے مقالوں میں حوالہ بھی ہے یعنی ان مقالوں کا دنیا 1فیصد کے چوٹی کے تحقیقی مقالوں میں ذکر ایک اہم جزوہے۔
تحقیقی اشاعت کا ایک دوسرا اہم عنصر مقالات کا اپنی تحقیقی میدان کے 10فیصد چوٹی کے مقالات میں شمولیت ہے۔یقینا ان کا تعلق ایک دفعہ پھر متعلقہ میدان میں تحقیق کے حوا لات سے ہے۔اس ضمن میں پاکستان کا نمبر ملائیشاء سے قدرے ذیا دہ ہے جو تقریبا 60مقا لات ہیں۔جبکہ سینگاپور اور سعودی عرب کے اوسطا 70مقالات دنیا کے دس فیصد ٹاپ تحقیقی مقالات میں شامل ہیں۔
۳۔تحقیق اور اس کی بین الاقوامی معیاری مجلوں میں طباعت کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے تحقیقی بین الاقوامی معیار ی تحقیقی اداروں سے اشراک کریں۔اس ضمن میں پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی اداروں نے سب سے ذیادہ اشتراک چین کے تحقیقی اداروں سے کی ہے اور سب سے ذیادہ یعنی 14356تحقیقی مقالے چین کے محققین کے ساتھ طبع کرائے ہیں۔ دوسرے نمبر پر امریکہ 11333،تیسرے نمبر پر سعودی عرب 10441اور چوتھے نمبر پر برطانیہ 8255مقالات طبع کرانے پر آتا ہے۔
۴۔پاکستانی محققین اپنی تحقیقی مقالات کو دنیا کی بہترین آئی ایف مجلوں میں طبع کرانے میں مسلسل کوشاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 66فیصد سائنسی مقالات ان ایمپکٹ فیکٹر مجلوں پر طبع ہوئے ہیں۔یہی وجہ ہے پاکستانی تحقیق دنیا کی تحقیق پر نمایا ں طور پر بڑھ رہی ہے۔پچھلے سال 89ہزار کے قریب تحقیقی مقالے دنیا کی بہترین تحقیقی مجلوں میں شائع ہوئی ہیں۔ان میں تقریبا 31فیصد مقالے متعلقہ تحقیقی میدان کے ٹاپ بہترین 25فیصد مجلوں میں شائع ہورہی ہیں۔جو پاکستانی تحقیقی مقالات کی معیار میں بہتری کی غمازی کرتا ہے۔
۵۔تحقیق کے وہ میدان جن میں پاکستانی اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں نے نمایاں طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے میں زراعت،علوم حیوانات و نباتات، علوم ادویات سازی، کمپیوٹر سائنس، فزکس اور ریاضی شامل ہیں۔ جو پاکستان میں جدید تحقیق کی سمت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ تاہم علوم نفسیات اور نیورالوجی میں پاکستان کا حصہ انتہائی کم ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے تحقیقی ادارے اور اعلیٰ تعلیمی ادارے ان میدانوں میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کریں۔ پاکستان نے 19فیصد تحقیق مقالات میڈیسن (طب) اور کیمسٹری (کیمیاء) کے میدان میں طبع کئے۔ جو بالترتیب 14752اور 10660ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ پاکستانی محققین نے علوم حیوانات و نباتات، انجینئرنگ اور فزکس کے میدانوں میں بھی خاطر خواہ تحقیقی مقالے طبع کئے ہیں۔ تاہم معاشیات، نیورالو جی، نفسیات اور خلائی تحقیق کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان میدانوں میں بہت کم تعداد میں تحقیق مقالات طبع ہوئے ہیں۔ 
۶۔ کیمسٹری (کیمیاء) کے میدان میں پاکستان میں سب سے زیادہ تحقیق اور ان کی اشاعت کرنے والے اعلیٰ تعلیمی و تحقیقی اداروں قائد اعظم یونیورسٹی سر فہرست ہے۔ اس کے بعد کامسیٹ کراچی یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی آتی ہیں۔ 
اسی طرح علوم نباتات و حیوانات میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سرفہرست ہے جبکہ ان کے بعد لمز،لاہور، پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور بارانی یونیورسٹی آتی ہیں۔ پاکستان کے 20چوٹی کے تحقیقی اداروں میں کامسیٹ انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، قائداعظم یونیورسٹی، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، پنجاب یونیورسٹی، NUST، آغاخان یونیورسٹی، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، سرگودھا یونیورسٹی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اداروں میں کامسیٹ نے 12000اور قائد اعظم یونیورسٹی نے 11500 تحقیقی مقالوں کی طباعت کیں ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان کے چھ ادارے جن کی تحقیقی مقالوں کا اوسط فیکٹر دنیا کے اوسط فیکٹر سے زیادہ ہے۔ میں نیشنل سینٹر فار فزکس (قومی مرکز برائے طبیعات)، آغا خان یونیورسٹی، کامسیٹ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف پشاور اور LUMSشامل ہیں۔ جہاں تحقیقی اداروں میں تجربہ کار محققین کی ایک کثیر تعداد کی وجہ سے بھی ہے۔ 
درج بالا حقائق کا تنقیدی جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے دس سالوں میں پاکستانی تحقیق کے معیار اور ان کی دنیا کے بہترین تحقیقی مقالوں میں اشاعت میں اضافہ ہو رہا ہے جو یقینا ایک حوصلہ افزا امر ہے۔ تاہم اس تحقیق کو معاشرے کے مسائل کو حل کرانے اور اس ضمن میں دیر پا اورکم قیمت اشیاء اور خدامت فراہم کرانے کیلئے مزید محنت کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جدید میدانوں بشمول نفسیات، علوم عمرانیات، نیورولوجی، خلائی تحقیق وغیرہ میں مزید معیاری تحقیق کی ضرورت ہے۔ قراقرم یونیورسٹی میں گریجویٹ سکول کے قیام کا ایک بنیادی مقصد گلگت  بلتستان میں تحقیق کی بنیاد پر یہاں کے مسائل کیلئے ایک دیرپا اور کم قیمت حل تلاش کرنا بھی ہے۔ اس وقت گریجویٹ سکول میں 11ایم ایس اور 3پی ایچ ڈی پروگرامز شروع کیئے گئے ہیں۔ جن میں اس وقت کم و بیش 500طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم و تحقیق میں مصروف ہیں اس ضمن میں سیشن 2019بہار میں داخل ہونے والے طلبہ و طالبات نے زیادہ تر درکار کورس وقت ختم کر لیا ہے اور پچھلے مہینے میں آن لائن ورکشاپ کے ذریعے تقریباً 60ایم ایس اور تین پی ایچ ڈی طلبا نے اپنی تحقیقی ڈھانچہ (سائینوپسز) پیش کئے۔ اس ورکشاپ کی تفصیل اگلی قسطوں میں پیش کی جائے گی۔ اس تحقیق کا زیادہ توجہ گلگت   بلتستان کے مسائل اور چیلنجز ہیں۔ جن میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کی تبدیلی، گلیشیرز اور منجمد پانی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات، قدرتی آفا ت، خوراک کی کمی، زراعت اور زمین کے مسائل،کرونا وائرس سے پھوٹنے والی بیماریاں COVID-19کے تدارک کیلئے درکار حکمت عملی، ادویاتی نباتات، پانی کے مسائل، تعلیمی معیار اور اساتذہ کی استعداد کار بڑھانا، جذباتی ذہانت اور ان کے معاشرے پر اثرات وغیرہ شامل ہیں۔ اس ضمن میں محققین کی نگرانی کرنے والے اساتذہ کرام کو تاکید کی ہے کہ ان طلبہ سے معیاری تحقیق کے اصولوں پر کام کراتے ہوئے ان کو بین الاقوامی مجلوں میں اپنی تحقیقی مقالات کو طبع کرانے کو ممکن بنائے تاکہ معاشرے کے مسائل کو حل کرانے اور پاکستان میں تحقیق کے معیار کو بڑھانے میں قراقرم یونیورسٹی ایک بھر پور کردار ادا کر سکے۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ہم سب کو تمام زمینی اور آسمانی آفات سے حفظ وآمان میں رکھیں اور ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم علم وتحقیق کے ذریعے معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔ آمین ثمہ آمین۔

No comments: