Sunday, June 7, 2020

برین ٹیومر کی 100سے زائد اقسام، ہر رسولی کینسر نہیں ہوتی، باپ میں برین ٹیومر ہو تو بچوں میں منتقل نہیں ہوتا۔۔۔۔پاکستان میں نیورو سرجنز کی شدید کمی، 22کروڑ آبادی کیلئے 350نیورو سرجنز دستیاب ہیں‘پروفیسرخالد محمود کی عالمی دن پر گفتگو

لاہور(این این آئی)پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ برین ٹیومر کی 100اقسام ہیں اور ہر ٹیومر کینسر نہیں ہوتا اگر والد یا بھائی کے دماغ میں رسولی ہو تو یہ بچوں کے لئے خطرہ نہیں بن سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دماغ میں بننے والی رسولیاں انسانی اعظا کو متاثر کر سکتی ہیں ان کی بروقت تشخیص اور علاج ضروری ہے۔ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ وہ برین ٹیومر کا علاج صرف نیورو سرجن کے پاس ہے عطاعیوں کے پاس جانے سے گریز کیا کریں۔  ان خیالات کا اظہار انہوں نے”ورلڈ ٹیومر ڈے“ کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ برین ٹیومر کی تشخیص اور علاج معالجہ کے حوالے سے امریکہ اور برطانیہ  میں ہونے والی جدید طرز کی سرجری میں پاکستان کسی طور پر بھی پیچھے نہیں رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ دماغ میں 100مختلف اقسام کی رسولیاں پائی جاتی ہیں۔ جن میں سے چند ایک ہی کینسر کی شکل اختیار کرتی ہیں۔دماغ کی رسولی کی علامات میں سر کا درد، الٹی ہونا، فالج، لقوہ، مرگی کے جھٹکے، بے ہوش ہو جانا و غیرہ شامل ہیں۔ ایسی صورت میں مستند معالج سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ ملک میں نیورو سرجنز کی شدید کمی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ  بائیس کروڑ کی آبادی پر مشتمل پورے ملک میں محض350نیورو سرجنزدستیاب ہیں جن میں سے 45نیورو سرجنز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔صحت کے شعبے کے لئے حکومتی پا لیسیاں قابل تحسین ہیں تاہم ملکی آبادی کے لئے کم سے کم 1000نیوروسرجنز کا ہونا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب کے تما م بڑے ہسپتالوں میں نیورو سرجری کی تمام سہولیات موجود ہیں۔خواتین اور مردوں میں اس مرض کی شرح یکساں ہوتی ہے مگر جن بچوں کی ریڈی ایشن ہوتی ہے ان میں مرض کے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں دماغی امراض کے علاج معالجے میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسزکا  قیام ایک اہم پیش رفت ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں جدید طریقہ آپریشن کے حوالے سے بتایا کہ اس طریقہ آپریشن میں ابرو کے درمیان بالوں کے اندر چیرا لگا کر ماتھے کی ہڈی کا چھوٹا ٹکڑا نکال کر دماغ کی رسولی کو کامیابی سے نکالا جاتا ہے۔ بعد ازاں آپریشن کے زخم کا نشان بالوں کے اندر چھپ جاتا ہے۔ اور مریض کے سر پر کوئی نشان موجود نہیں رہتا۔معروف  نیوروسرجن نے واضح کیا کہ دماغی امراض  بالخصوص دماغی رسولیوں کے شکار افراد کو تحصیل اور ضلع کی سطح پر موجود ہسپتالوں سے ریفر ہو کر آنا چاہئے۔ اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب وہاں پر تجربہ کار اور ماہر نیوروسرجن موجود ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دماغ کی رسولی کا علاج اسی وقت ممکن ہے جب مریض بر وقت مستند اور تجربہ کارمعالج سے رابطہ کرے اور اس کی تشخیص ہو -پروفیسر خالد محمود کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے پاکستان میں برین ٹیومر کے حوالے سے کوئی سینٹرل ڈیٹا موجود نہیں جبکہ امریکہ میں ایک لاکھ افراد میں برین ٹیومر کے 22کیسز سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طب کہ شعبے میں جدید ریسرچ اور سرجری کی ترقی کی بدولت آج دماغی بیماریوں کا علاج با آسانی ہو رہا ہے جس سے مریض کی زندگی کا معیار بلند ہوا ہے۔

No comments: