گلگت(پ ر) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز میر تعظیم اختر نے کہاہے کہ بلینڈ ڈلرننگ ماڈل کے تحت سمسٹر شروع کرنے کے خلاف چند سازشی عناصر کی جانب سے ایک بار پھر طلبا کو اُکسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس کی بھرپور الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔طلبا کو اگر واقعی میں کوئی مسئلہ ہے تو کسی بھی وقت یونیورسٹی کے زمہ دارافراد سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ سازشی عناصر کے سازشوں میں آکر احتجاج کرنے کے لیے مختلف جگہوں کی طرف رُخ کرنا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔پبلک ریلیشز کے مطابق یونیورسٹی نے ہر حوالے سے سوچنے کے بعد طلبا کے لیے بلینڈڈ
لرننگ ماڈل کے تحت سمسٹر شروع کرنے کافیصلہ کیاہے۔گزشتہ چند روز سے کچھ سازشی عناصر مختلف ذریعے سے بلینڈڈ لرننگ ماڈل کے خلاف محاز کو گرم کیاہواہے۔لہذا طلبا سازشوں کا پرواہ کئے بغیر بلینڈ ڈلرننگ ماڈل کے تحت تعلیم حاصل کرے اور اپناسال ضائع ہونے سے بچائے۔ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نے کہاکہ یونیورسٹی نے بلینڈڈ لرننگ ماڈل کے تحت سمسٹر شروع کرنے کے لیے تمام اضلاع میں سہولت کار مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیاہے جہاں یونیورسٹی کے رضاکار موجود ہونگے جو طلبا کو ہرحوالے سے رہنمائی اور مدد فراہم کرینگے۔اس حوالے سے یونیورسٹی نے اشتہار بھی مشتہر کیاہے۔کثیر تعداد میں رضاکار اپنی رجسٹریشن کروارہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یونیورسٹی کو اپنے طلبہ وطالبات کا سب سے زیادہ فکر ہے۔یونیورسٹی اپنے طلبا کے بارے میں کبھی برا نہیں سوچے گی۔یونیورسٹی نے بڑی غور وفکر اور سوچ سمجھ کر بلینڈ ڈ لرننگ ماڈل کے تحت سمسٹر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔لہذا طلبا سازشی عناصر کے سازشوں پر توجہ مرکوز نہ کرے۔انہوں نے کہاکہ تعلیم دشمن عناصر سازشوں میں مصروف ہیں۔انہیں اپنی سیاست کرنی ہے۔ان کا طلبا کی تعلیم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔لہذا طلبا تعلیم وتحقیق کی طرف توجہ مرکوز کرے اور بلینڈڈ لرننگ ماڈل کے تحت یونیورسٹی کی جانب سے شروع کردہ سمسٹر میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے۔
BANG-E-SAHAR----In the twilight night heralds a SHIMMERING dawn... Lack of an independent media is one of the fundamental reasons behind the decade’s long suppression in Gilgit-Baltistan. Bang-e-Sahar strives to fill that gap by advocating undauntedly the human rights violation not only in the region but also Jammu Kashmir and chitral. Freedom of press is what we never compromise on.
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment