Tuesday, June 2, 2020

پاکستان اور بھارت کی سفارتی کشیدگی علاقائی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے

جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان کے دو سفارت کاروں کو بقول اس کے جاسوسی کے الزام میں ناپسندیدہ قرار دیکر ملک سے نکلنے کا حکم دیا ہے۔
پاکستان نے سفارت کاروں کو ملک سے نکلنے کا حکم دینے کی مذمت کی ہے، اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے اہل کاروں کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھارتی اقدام کی مذمت کی گئی اور اسے سفارتی تعلقات سے متعلق جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا گیا۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو متعصبانہ اور پرتشدد اقدامات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پیر کو جاری ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بھارتی انتہائی پسند تنظیم ‘آر ایس ایس’ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت پاکستانی ہائی کمیشن پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی مہم شروع کر چکی ہے، اس مہم کا مقصد اپنے جرائم کو چھپانا ہے۔
شبلی فراز کے مطابق بین الاقوامی قوانین کے تحت سفارتی عملے کی گرفتاری و تشدد مذموم اور انتہائی قابلِ مذمت فعل ہے۔ مہم کا مقصد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نہتے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی سے توجہ ہٹانا ہے۔
دوسری جانب لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان تصادم کی فضا بدستور موجود ہے۔ ہانگ کانگ میں چین کی جانب سے ایک نیا سیکیورٹی قانون لانے اور وہاں ہنگامہ آرائی پر امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات میں، جو پہلے ہی کشیدہ ہیں مزید تلخی بڑھ رہی ہے۔
یہ تمام صورت حال جنوبی ایشیا اور اس سے بھی آگے امن اور سلامتی کے لئے نئے خطرات پیدا کر رہی ہیں۔ جیو اسٹریٹیجک اور جیو پولیٹیکل امور کے ماہرین حالات کو پیچیدہ قرار دے رہے ہیں۔
دہلی یونیورسٹی میں ایسٹ ایشیا اسٹڈیز کی ڈاکٹر راونی ٹھاکر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تو کشیدگی پہلے سے ہی موجود ہے لیکن بقول ان کے پاکستان کی جو بھی پالیسی بنتی ہے، وہ چین کے کہنے پر بنتی ہے۔ اور چین اس علاقے میں اپنی بالادستی کے لئے عرصے سے کوشاں ہے۔ جس کے لئے وہ پاکستان کو بھی استعمال کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین اول تو بھارت سے یہ چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کا جیو اسٹریٹیجک پارٹنر نہ بنے۔ اور دوسرے وہ بھارت میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے کیونکہ وہ بہت بڑی منڈی ہے۔ اور چین اپنے مقاصد کے لئے نیپال کو بھی بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کر رہا ہے اور ان حالات میں بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔
ڈاکٹر ٹھاکر نے کہا کہ عالمی سطح پر امریکہ کی جو پالیسیاں ہیں ان سے یورپ میں روس کو اور جنوبی ایشیا میں چین کو فائدہ پہنچا ہے۔
خیال رہے کہ اس بارے میں امریکہ کا موقف واضح ہے کہ اس کی پالیسیاں اس کے قومی مفاد میں ہوتی ہیں جیسا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی گزشتہ صدارتی انتخابی مہم میں امریکہ فرسٹ کا نعرہ دیا اور وہ اسی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی برادری کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئیے، اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ پہلے ہی ہندوستان اور چین کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی تیسرے فریق کی ثالثی کے لئے تیار ہو گا خاص طور پر چین، جس کے ہانگ کانگ کے مسئلے پر امریکہ سے تعلقات جو پہلے ہی سے کشیدہ تھے اب مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اور بین لاقوامی برادری بس اس بات پر نظر رکھ سکتی ہے کہ یہ تصادم بڑھنے نہ پائے۔ لیکن آئندہ کی صورت حال کا دارو مدار چین کے رویے پر ہو گا
پاکستان کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائرکٹر خالد رحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خیال کو بالکل غلط قرار دیا کہ پاکستان کی جو بھی پالیسی ہوتی ہے وہ چین کے کہنے پر بنتی ہے، انھوں نے کہا کہ یہ اور بات ہے کہ علاقائی اور عالمی مسائل کے سلسلے میں اتفاق سے دونوں کی پوزیشن ایک ہے اور سوچ اور مفادات کا یہ اشتراک کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کب نہیں رہی اور اس نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو خطے کی سیکیورٹی اور سلامتی شروع ہی سے خطرے میں رہی ہے لیکن اب تبدیلی یہ آئی ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان معاملات میں تیزی آ گئی ہے کیونکہ بقول ان کے بھارت کی جانب سے لداخ کے نقشوں میں تبدیلی پر رسمی نوعیت کے احتجاج کی بجائے چین نے عملی کارروائی کر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر چین بھی اس معاملے کو بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔
خالد رحمان نے کہا کہ بعض ملکوں کو ہانگ کانگ میں حالات بگاڑنے اور چین کے لئے دشواریاں پیدا کرنے میں دلچسپی ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو کشمیر میں اس سے کہیں زیادہ کچھ ہو رہا ہے جتنا ہانگ کانگ میں ہو رہا ہے، مگر اس کے لئے دنیا کے کسی کونے سے آواز نہیں اٹھتی۔ اور ایسا لگتا ہے کہ معاملات اصولوں پر نہیں بلکہ اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔
خالد رحمان نے کہا کہ اس وقت دنیا کے جو حالات ہیں، خاص طور سے کرونا وائرس کے سبب جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان جو اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں، حالات کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے تعاون ہو۔
لیکن عالمی نظام میں ان دونوں کے کردار کے بارے میں جو توقعات تھیں وہ اس سے زیادہ خراب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں یہ سب کا امتحان ہے کہ انتہائی پیچیدہ صورت حال سے کیسے نمٹا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ ہانگ کانگ میں نیا سیکیورٹی قانون لائے جانے اور وہاں ہنگاموں کے پس منظر میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اب ہانگ کانگ خود مختار علاقہ نہیں رہا اور اب امریکہ اس کے ساتھ مزید خصوصی برتاؤ نہیں کرے گا اور ان کی حکومت ان خصوصی مراعات پر نظر ثانی کرے گی جو اسے دی جا رہی تھیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات چین کے اندرونی معاملات میں سنگین مداخلت ہیں اور امریکہ کے الفاظ یا عمل سے چین کے مفادات کو نقصان پہنچا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
جنوبی ایشیا کی صورت حال کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ممتاز امریکی اسکالر ڈاکٹر مارون وائن بام نے کہا کہ کوئی بھی فریق تصادم نہیں چاہتا اور دوسری طاقتوں کو اس تصادم سے دور رہنا چاہیے تاکہ چین اور بھارت اور پاکستان اور بھارت اپنے جھگڑے خود نمٹا سکیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی پر تو بین الاقوامی برادری کو تشویش ہوتی ہے لیکن جنوبی ایشیا کی صورت حال پر عالمی سطح پر کوئی قابل ذکر رد عمل ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔
عالمی رد عمل فی الحال نظر نہ آئے لیکن پاکستان اور بھارت اور چین اور بھارت کے درمیان تصادم کی فضا اور ہانگ کانگ اور اس سے قبل کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے مسئلے پر دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی عالمی امن و سلامتی کے لئے کوئی نیک شگون نہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والا وقت کیا لیکر آتا ہے۔

No comments: