Tuesday, June 2, 2020

کنٹرول لائن پر جھڑپیں، بھارتی فوج کا 13 عسکریت پسند ہلاک کرنے کا دعوی

بھارتی فوج نے پیر کو دعویٰ کیا کہ اس نے کنٹرول لائن کے نوشہرہ اور مینڈھر سیکٹروں میں الگ الگ جھڑپوں کے دوران 13 مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ جموں میں بھارتی فوج کے عہدیداروں نے بتایا کہ ہلاک کیے گئے افراد ان کے بقول ‘دہشت گرد’ تھے جو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھارتی کشمیر میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے کہا،” اگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتے تو ظاہر ہے کہ وہ دہشت گردی اور تخریبی کارروائیاں کرتے”۔
عہدیداروں کے مطابق مصدقہ اطلاع پر بھارتی فوج نے 28 مئی کو پونچھ اور راجوری اضلاع کے سرحدی علاقوں میں بڑے پیمانے پر ‘در اندازی مخالف آپریشنز’ کا آغاز کیا۔ اس دوران مینڈھر سیکٹر میں دس اور نوشہرہ سیکٹر میں تین دراندازوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ یہ کارروائیاں آخری اطلاعات آنے تک جاری تھیں۔
بھارتی فوج کے ان دعوؤں کی تاحال آزاد ذرائع نے تصدیق نہیں کی ہے۔ پیر کو کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر ان دعوؤں پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لداخ میں بھارتی فوج اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے درمیان پچھلے چند ہفتوں سے جاری محاذ آرائی اور ان اطلاعات کے پس منظر میں کہ چینی فوج لداخ کے ایک ایسے وسیع حصے پر قابض ہو گئی ہے جس پر بھارت اپنا حق جتلاتا ہے، بھارتی عوام کی توجہ ہٹانے اور خفت مٹانے کی ایک دانستہ کوشش ہو سکتی ہے۔
تاہم بھارتی فوج کے افسران کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن کے نوشہرہ اور مینڈھر سیکٹروں میں پیش آئی جھڑپوں کے ساتھ ہی ضلع پونچھ اور ضلع راجوری کے کئی سرحدی علاقوں کی، جن میں کئی دیہات بھی شامل ہیں، باریک بینی کے ساتھ تلاشی لی جا رہی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ کنٹرول لائن سے کوئی درانداز داخل ہو کر مقامی آبادی میں گھل مل جانے میں کامیاب تو نہیں ہوا ہے۔
اس دوران بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بی ایس ایف کے ڈائرکٹر جنرل ایس ایس دیسوال نے جموں کے علاقے میں پاکستان کے ساتھ ملنے والی سرحد کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔
جموں میں بی ایس ایف کے ایک ترجمان نے بتایا کہ دورے میں دیسوال کو "موجودہ حفاظتی منظر نامے میں جموں سرحد کے نظام کی پیچیدگیوں کے بارے میں بریفنگ دی "۔
بی ایس ایف جموں خطے سے گزرنے والی بھارت پاکستان سرحد کے 198 کلو میٹر حصے کا دفاع کرتا ہے۔ یہ بھارت میں ‘انٹرنیشنل بارڈر ‘یا بین الاقوامی سرحد، لیکن پاکستان میں ‘ورکنگ باؤنڈری’ کہلاتی ہے۔
سرحد کے اس حصے پر بی ایس ایف اور پاکستان رینجرز کے درمیان اکثر اسی طرح محاذ آرائی دیکھنے میں آتی ہے جس طرح بھارت اور پاکستان کی افواج 745 کلو میٹر لمبی کنٹرول لائن پر 2003 کے فائربندی کے معاہدے کے باوجود اکثر لڑتے رہتے ہیں۔
بھارت کا اصرار ہے کہ جموں کے علاقے سے گزرنے والی یہ 198 کلومیٹر لمبی سرحد دراصل 2 ہزار 9 سو 12 کلو میٹر بھارت-پاکستان بین الاقوامی سرحد کا حصہ ہے جو گجرات سے شروع ہو کر جموں و کشمیر میں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کا استدلال ہے کہ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع کے پہاڑپور مقام سے لیکر ضلع اکھنور کے چکن نیک کاری ڈور تک جانے والی یہ سرحد اس لیے انٹرنیشنل بارڈر کی بجائے ‘ورکنگ باؤنڈری’ ہے کیونکہ یہ متنازع کشمیر کے علاقے سے گرزتی ہے۔
چکن نیک کاری ڈور سے 745 یا 767 کلومیٹر لمبی کنٹرول لائن کا آغاز ہوتا ہے۔ کنٹرول لائن این جے 9842 (جنگ بندی لائن کے انتہائی شمال میں واقع مقام ) پر ختم ہو جاتی ہے، جہاں دنیا کے بلند ترین میدانِ جنگ سیاچن گلیشئر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس پر حاکمیت کے دونوں ملک دعوے دار ہیں۔ 1972 میں طے پانے والے شملہ سمجھوتے سے پہلے کنٹرول لائن سیز فائر لائن یا جنگ بندی لائن کہلاتی تھی۔
ادھر بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے کنٹرول لائن کے کرناہ علاقے میں، جو ضلع کپوارہ میں ہے، سرحد پار سے بھیجی گئی اشیاء ضبط کی ہیں، جن میں دس دستی بم ، اے کے بندوق کے دو سو راؤنڈ اور چار وائر لیس سیٹ شامل ہیں۔
سری نگر میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے کرناہ علاقے کے امروہی نامی گاؤں کے شہری محمد حفیظ رینہ کو، جس کے ذریعے یہ قابل اعتراض سامان نامعلوم عسکری تنظیم تک پہنچانے کی کوشش کی جا رہی تھی، گرفتار کیا گیا ہے۔

No comments: