برلن (انٹرنیشنل ڈیسک) چین میں 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے، جہاں ان پر جھوٹے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ جرمن
نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق چینی حکومت صوبہ سنکیانگ میں ’’تعلیم نو‘‘ کے نام پر قائم مختلف حراستی مراکز چلا رہی ہے، جن میں بند افراد کے لیے ہر نیا دن ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ ان مراکز میں جہاں ایک طرف اذیت ناک انداز میں قیدیوں کو بٹھا کر کئی کئی گھنٹے چین نوازی کا لیکچر دیا جاتا ہے، وہیں انہیں صدر شی جن پنگ کی تعریف پر مبنی مواد دیکھایا جاتا ہے۔ ذرا سی لغزش یا غلطی پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ ان مراکز میں رہنے والے سابق قیدیوں کے مطابق مہینوں طویل اس قید میں ایک دن تاہم مختلف تھا۔ اس روز ان کے ہاتھ میں جرائم کی ایک فہرست دی گئی، جس میں سے انہیں چننا تھا کہ ان کا جرم کیا ہے۔ ان مراکز میں زیادہ تر وہ قیدی بند ہیں، جنہیں علم ہی نہیں کہ ان کا جرم کیا ہے۔ اس فہرست میں سے جرم چننے کے بعد ایک شرم ناک مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں قیدی کو کسی بھی طرح کی کوئی قانونی نمایندگی نہیں دی جاتی اور بغیر شواہد یا ثبوتوں کے ان مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ 4سابق قیدیوں سے بات چیت پر مبنی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک فہرست دی گئی، جس میں 70 جرائم درج تھے اور ان سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے کوئی ایک یا کئی جرائم چن لیں۔
No comments:
Post a Comment