Tuesday, May 26, 2020

امریکہ اور چین کے بڑھتے اختلافات اور پاکستان کی مشکلات

امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات سے پاکستان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کا دنیا کی ان دو سب سے بڑی معیشتوں پر بہت انحصار ہے, پاکستان ایک طرف چین کی مدد سے رابطہ سڑکوں کے نظام اور اقتصادی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں سے مدد کے لیے اسے امریکی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے تجارت کا معاملہ ہو، یا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں موقف کا شدید اختلاف، یا دنیا کے دوسرے خطوں میں اثر و رسوخ کی بات ہو۔ امریکہ اور چین کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے اور بعض ماہرین کا تو خیال ہے کہ ان کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل صورت حال بنتی جا رہی ہے جو تعلقات میں اونچ نیچ کے باوجود اپنے قیام سے ہی امریکہ کا اتحادی ہے اور چین سے بھی اس کے گہرے اقتصادی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔
پروفیسر حسن عسکری بین الاقوامی امور کے ممتاز تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک پاکستان کے لئے انتہائی اہم ہے جسے وہ ترک نہیں کر سکتا۔ جب کہ امریکہ اس منصوبے کی مخالفت کرتا ہے اور اس حوالے سے پاکستان پر دباؤ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان دونوں طاقتوں سے تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے پاکستان کو بہت سمجھداری سے چلنا ہو گا، کیونکہ پاکستان پر چینی قرضوں یا سرمایہ کاری کے بارے میں امریکہ کے جو اعتراضات ہیں ان کے بارے میں اسے منطقی اور سائنسی جواب دینا ہو گا اور واضح کرنا ہو گا کہ چین جو کچھ دے رہا ہے، اس میں کتنا قرض ہے۔ کتنی سرمایہ کاری ہے اور کتنی رقم کس مد میں آئی ہے۔ دوسرا اسے اپنی معیشت کو درست کرنا ہو گا، جس کے اس وقت امکانات اس لئے نظر نہیں آتے کیونکہ کرونا نے پاکستان ہی نہیں بلکہ بڑی مضبوط معیشتوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی معیشت کا زیادہ انحصار آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغرب پر ہے، اس لئے اسے اپنی معیشت کی خاطر ان اداروں کو ترجیح دینی ہو گی۔ لیکن اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ چین سے اس کے تعلقات میں کوئی خرابی پیدا ہو کیونکہ چین کو بھی صورت حال کا ادراک ہے اور اگر امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ ہے بھی تو یہ اس طرح کی نہیں ہو گی جیسی امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان تھی کیونکہ اب صورت حال مختلف ہے اور آج کے دور میں ان دونوں کے درمیان ایک دوسرے پر انحصار بہت ہے۔ جیسے کہ امریکہ کی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں چین میں کام کرتی ہیں۔ دوسری جانب چین کی امریکہ میں بھاری سرمایہ کاری ہے۔ اس لئے یہ سرد جنگ ایک حد سے آگے نہیں جا سکے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ان دونوں ملکوں سے اپنے تعلقات میں توازن رکھنے کے لئے بہتر سفارت کاری کا استعمال کرنا ہو گا۔
عالمی تعلقات پر نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار پیرس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد کا نقطہ نظر کچھ مختلف ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی امریکہ کے ساتھ زیادہ تجارت نہیں ہے۔ جب کہ چین کے ساتھ اس کی تجارت امریکہ کی نسبت زیادہ ہے۔ دوسرا یہ کہ جغرافیائی لحاظ سے وہ چین کے بہت قریب ہے جسے سیاسی اصطلاح میں Gravity Model کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے اسے چین کے زیادہ قریب ہونا چاہئیے۔ اور یہ ہی پاکستان کے لئے بہتر آپشن ہے۔
انہوں کہا کہ اس صورت میں پاکستان پر سفارتی دباؤ تو آئے گا۔ لیکن اچھی سفارت کاری اور اپنی معیشت کے لئے مغربی اداروں پر انحصار کم کر کے اور معیشت کو بہتر بنا کر وہ اس دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معاشی قوتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی رسہ کشی کی اس صورت حال میں پاکستان کو بہتر سفارت کاری سے کام لیتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہو گی۔

No comments: