Saturday, May 23, 2020

کیا صدر ٹرمپ کرونا وائرس کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں؟

ایسے میں جب کرونا وائرس کی وبا دنیا بھر میں بلا استثنٰی تباہی مچاتی چلی جا رہی ہے، اس نے بین الااقوامی سیاسی منظر نامے کو بھی محاذ آرائی کا شکار کر رکھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ قومی سطح پر بھی اس کا سیاسی رنگ نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
یہاں امریکہ میں نومبر کے صدارتی انتخابات سے پہلے اس کی سیاسی گونج بظاہر مرکزی حثیت اختیار کرتی معلوم ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ سیاسی فائدے کے لئے کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کو استعمال کر رہے ہیں۔
صدارتی انتخاب میں ان کے ممکنہ ڈیموکریٹک امیدوار جو بائیڈن بھی الزام لگاتے ہیں کہ صدر نے کرونا وائرس کی تباہی سے بچاؤ کے لئے مناسب اور بروقت اقدامات نہیں کئے۔ دوسری جانب، صدر کے حامیوں کا کہنا ہےکہ ٹرمپ دراصل کارکنوں کی پریشانی اور ان کی جھنجھلاہٹ کی ترجمانی کر رہے ہیں، جن کا یہ کہنا ہے کہ انھیں اس مہلک بیماری سے اتنا نقصان نہیں پہنچا، جتنا کے اقتصادی بندشوں سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار برائین پیڈن نے اپنی رپورٹ میں اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ ابتدائی طور پر صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس سے نمٹنے کے سلسلے میں ریاستی گورنروں کے اختیار کو تسلیم کیا تھا، لیکن بعد میں بعض ایسی ریاستوں میں، جو الیکشن کے اعتبار سے اہم خیال کی جاتی ہیں، وہ لاک ڈاون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے، جن کا نشانہ ڈیموکریٹک گورنر ہیں۔
مبصرین کے مطابق، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پنسلوینیا، وسکونسن اور مشی گن جیسی ریاستوں میں مظاہرین کو، جو لاک ڈاون کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں، صدر ٹرمپ کی صورت میں ایک اتحادی مل گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ یہ ریاستیں جو ڈیموکرٹک پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتی ہیں، دو ہزار سولہ کے صدارتی انتخاب میں انھوں نے ٹرمپ کی جیت میں مدد دی تھی۔ بقول ان کے، اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ انتخاب میں بھی وہ کلیدی کردار ادا کریں۔
ٹرمپ کے حامیوں کا موقف ہے کہ ان ریاستوں میں ڈیموکریٹک گورنروں کی جانب سے، ان کے بقول، ضرورت سے زیادہ اور یکطرفہ اقتصادی بندشوں کی جانب صدر ٹرمپ کا مخالفانہ رویہ بجا ہے۔
یاد رہے کہ مشی گن میں بعض مظاہرین مسلح تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بائیڈن نے مظاہرین کے دھمکی آمیز رویے کی مذمت کی ہے اور صدر ٹرمپ پر یہ کہتے ہوئے کڑی تنقید کی ہے کہ وہ نفاق کا بیج بو رہے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر نے موجودہ عالمی وبا کے پیش نظر جو اقدامات کئے ہیں ان میں کوئی تسلسل نہیں پایا جاتا۔ اور بقول ان کے، ان اقدامات کے پس پردہ سیاست کارفرما ہے، تاکہ بحران کی ذمہ داری کسی اور پر ڈال دی جائے اور الیکشن میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
صدر ٹرمپ اقتصادی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے پر زور دیتے ہیں گرچہ کہ صحت کے ماہرین اس پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ امریکہ میں اس وائرس سے اب تک اکیانوے ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور ملک کی معیشت بیشتر سست روی کا شکار ہوچکی ہے، جبکہ کروڑوں افراد بیروزگار بھی ہوگئے ہیں۔
اس تمام پس منظر اور سیاسی کھینچا تانی کے ماحول میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے کہ یہ عالمگیر وبا نومبر کے الیکشن اور اس کے نتیجے پر کس طرح اثر انداز ہوسکتی ہے۔

No comments: